یوسف رضا گیلانی(قسط دوئم)
ہماری خواہش تھی کہ ہم کبھی چچا رحمت حسین کی کار اوپل ریکارڈ بھی چلائیں لیکن ان کی سخت طبیعت کے پیش نظر ہم یہ جرأت نہ کرسکے، اس طرح ہماری یہ خواہش حسرت ہی رہی۔ والد کبھی کبھار ہمیں سکول خود چھوڑنے جاتے تھے۔ سردیوں کے موسم میں اگر ٹھنڈ کی وجہ سے کار سٹارٹ نہ ہوتی تو وہ ہم سے دھکے بھی لگاتے۔ اگر سکول پہنچنے میں تاخیرہو جاتی تو سزا کے طور پر ہمیں کندھوں پر سکول بیگ رکھوا کر پورے گرائونڈ کا چکر لگوایا جاتا اور خاصی ڈانٹ بھی پڑتی تھی۔
ایک مرتبہ میں اور چچازاد بھائی حسن رضا لٹھے کی شلوار، بوسکی کی قمیض اور شیروانی پہنے ہوئے نمازِعید ادا کرنے دربار پیر پیراں موسیٰ پاک شہیدؒ جارہے تھے کہ ہمیں راستے میں ایک بہروپیا مل گیا جس نے ہاتھ میں اینٹ اُٹھا رکھی تھی۔ اس نے اینٹ کو ہماری طرف پھینکنے کی اداکاری کی۔ حسن رضا ڈر گیا اور حسین آگاہی بازار کی طرف بھاگ نکلا۔ بہروپیے کو موقع مل گیا، وہ بھی اینٹ اُٹھائے اس کے پیچھے بھاگ کھڑا ہوا۔ بہروپیے نے صرافہ بازار سے حسین آگاہی بازار تک پیچھا کیا۔ جب وہ پلٹ کر آیا تو نماز ہوچکی تھی۔
ہریانہ ٹرانسپورٹ کے مالک سابق ایم ایل اے الحاج شیخ ریحان الدین ہمارے ملتان میں ہمسائے اور والد کے قریبی ساتھی تھے۔ ان کا ٹرانسپورٹ کا عمدہ کاروبار تھا۔ ان کے پاس امریکن کار تھی جس پر ہم اکثر سکول جایا کرتے تھے۔ ان کا عالی شان گھر ملتان میں ہائی کورٹ کے بالمقابل ہے۔ اب اس کے احاطے میں کئی وکلاء کے دفاتر بن چکے ہیں۔ آخری مرتبہ میری ملاقات اُن کی ایک نواسی سے ہوئی، وہ میری بہنوں کی کلاس فیلو رہ چکی تھیں۔ اُن دنوں میں سپیکر قومی اسمبلی تھا۔ مجھے اُن کے بدلے ہوئے حالات کی وجہ سے افسوس ہوا۔
پیرمختار حسین والد کے چچا تھے۔ انہوں نے چاہ سہری والا، موضع سلطان پور ہمڑ، ملتان کے مقام پر چلہ کاٹا تھا۔ وہ نہایت ہی نیک سیرت انسان تھے۔ ان کا اوائل جوانی ہی میں انتقال ہو گیا۔ اس مقام پر درخت تھے اور روایت کے مطابق درختوں کے پتوں پر اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہوتا تھا۔ پتے گرنے اور دیگر خدشات کے پیش نظر بے حرمتی کا اندیشہ تھا لہٰذا پردادا نے خصوصی دعا کی کہ یہ عمل رُک جائے اور اس طرح یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ وہاں آـج بھی عوام ٹائیفائیڈ بخار کے علاج کے لیے کھجور کے درختوں کی شاخیں گلے میں لپیٹے ہیں۔
پیرمختار کا میلہ ہر سال اسی مقام پر ہوا کرتا تھا۔ ہم اس کا سال بھر انتظار کرتے اور میلے کے موقع پر سکول سے کچھ دنوں کی چھٹیاں لے لیتے تھے۔ میلے کے مقام پر کئی شامیانے لگائے جاتے تھے۔ گیلانی خاندان کی خواتین کے لیے مریدین اپنے گھر وقف کرتے تھے جبکہ چچائوں کے الگ الگ کیمپ ہوتے تھے۔ میلے پر رنگ برنگی چوڑیوں، کھلونوں اور دیگر اشیاء کی دکانیں سجی ہوتی تھیں۔ جگہ جگہ مختلف قسم کی مٹھائیوں اور کھانے پینے کی اشیاء کے چھوٹے بڑے سٹالز لگائے جاتے۔ بچوں کے لیے جھولے بھی موجود ہوتے تھے۔ میلے کے موقع پر بڑے بڑے دنگل کروائے جاتے جن میں نامور پہلوان اپنی طاقت اور دائوپیچ کا مظاہرہ کرتے تھے۔ چھوٹا، بڑا، امیر، غریب ، مرد، عورت ہر ایک اس میلے میں شریک ہو کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتا تھا۔ بعض مہمانوں کے بچے چوری چھپے کپاس چُن کر اس کے عوض دکانوں سے ٹافیاں اور کھانے کی اشیاء خریدتے تھے۔ ہم دریائے چناب کے کنارے پکنک مناتے اور کبھی کبھار ہوائی بندوق سے پرندوں کا شکار بھی کرتے تھے۔
محمد خان جونیجو جب مغربی پاکستان کے وزیرریلوے بنے تو انہوں نے اس مقام پر پیرمختار کے نام سے ریلوے سٹیشن بنوایا۔ اُس دور میں اس مقام پر کوئی پختہ سڑک نہیں تھی اور لوگ ریل گاڑی اور تانگے کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ میں نے جب اسی حلقۂ انتخاب سے منتخب ہو کر وفاقی وزیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں، یہاں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے۔ علاقے میں سڑکوں کے جال بچھا دیئے۔ ریلوے لیول کراسنگ بنوایا۔ پورے علاقے میں کوئی جگہ ایسی نہ رہی جس میں بجلی مہیا نہ کردی گئی ہو۔ سکول اور ہسپتال تعمیر کروائے گئے اور سب سے بڑھ کر اس سیلابی علاقے کے گرد دریائے چناب پر بند بنوایا تاکہ آئندہ علاقہ سیلاب سے محفوظ رہے۔ یہ علاقہ اب زرعی لحاظ سے بہت ترقی کرچکا ہے۔ میں اسی حلقہ سے چیئرمین ضلع کونسل ملتان اور متعدد بار ایم این اے منتخب ہوا۔ ایک مرتبہ حسن رضا اپنی مورس کار پر یہ میلہ دیکھنے گئے تو ان کی کار اچانک ایک کنویں میں گر گئی جس میں پانی نہیں تھا۔ لوگوں کی کثیر تعداد نے انہیں کار سمیت کنویں سے نکال لیا۔ پریس فوٹوگرافر اقبال اس موقع پر موجود تھا۔ اس نے فوراً کنویں میں کار کا فوٹو بنالیا۔ دوسرے دن جب اخبار میں وہ فوٹو شائع ہوا تو اسے پہلا انعام ملا۔
مکول قوم نے چاہ سہری والا، سلطان پور ہمڑ میں اپنی زمینیں گیلانیوں کے نام وقف کی ہوئی تھیں۔ چچا فیض مصطفی کی وصیت تھی کہ وفات کے بعد انہیں اس جگہ دفن کیا جائے۔ 13ستمبر 2004ء کو اُن کا انتقال ہوگیا تو ہم نے ان کی وصیت اور خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں اُسی جگہ دفن کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین۔
گیلانی خاندان کی خواتین جب دربار پیر پیراں موسیٰ پاک شہیدؒ جاتیں تو گاڑی کے شیشوں پر چادر لگا دی جاتی تھی۔ جب وہ دربار پر پہنچتیں تو ’’پردہ، پردہ‘‘ کی آوازیں گونجتیں۔ مقامی لوگ اپنے گھروں کے اندر چلے جاتے اور زائرین دیواروں کی طرف منہ کر لیتے تھے۔ دربار کے صدر دروازے کو بند کردیا جاتا اور کسی غیرمرد کو اندر آنے کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ اس حوالے سے میں ایک اہم واقعہ ضرور رقم کرنا چاہوں گا کہ جب تایا مخدوم سیّد شوکت حسین 24جولائی 1982ء کو انتقال فرما گئے تو ان کے بیٹوں سیّد وجاہت حسین اور سیّد تجمل حسین عرف سیّد صدرالدین شاہ کے درمیان سجادہ نشینی کے مسئلے پر اختلاف ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ یہ مسئلہ شدت اختیار کرتا، خاندان کے بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ دادا مخدوم غلام مصطفی شاہ کی اولادسے خفیہ رائے لی جائے۔ اس مقصد کے لیے دربار پر باقاعدہ بیلٹ بکس رکھوایا گیا۔ برسوں کے بعد دربار کے آس پاس ’’پردہ پردہ‘‘ کی آوازیں گونجیں۔ مجھے ایسے لگا جیسے وقت کا پہیہ واپس گھوم گیا ہو۔ رائے شماری ہوئی اور جب نتیجہ نکلا تو تایا کے بڑے بیٹے سیّد وجاہت حسین کامیاب ہو گئے اور اس طرح دربار کی فیوض وبرکات سے یہ تنازع اُس وقت خوش اسلوبی سے طے پاگیا۔
خلیفہ عبدالغفار جو ہماری درگاہ سے منسلک تھے، نہایت ہی نیک انسان تھے۔ انہیں مختلف علوم پر دسترس حاصل تھی۔ ان کے تعویذ بہت مشہور تھے۔ وہ گھنٹوں والد کے پاس بیٹھتے اور ان کی پرانی باتوں اور بزرگوں کی یاد سے دل تازہ کرتے تھے۔ ان کے ساتھ میری بھی خاصی دوستی تھی۔ میں بھی اپنے والد کی طرح ان سے اپنے خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کرتا اور حالات پر گفتگو کرتا رہتا تھا۔ انہوں نے خاندان کے کئی افراد کا نکاح پڑھایا جن میں میں بھی شامل ہوں۔ ان کے بیٹوں تصدق حسین اور مصدق حسین سے آج بھی میرے اچھے مراسم ہیں۔
گرمیوں میں سکول کی چھٹیاں گزارنے ہم اکثر مری جاتے تھے۔ ہمارا گھر ویوفورتھ ہوٹل کے قریب اپرجھیکا گلی روڈ پر تھا۔ رات کو مطلع صاف ہونے کی صورت میں وہاں سے اسلام آباد کی روشنیاں صاف دکھائی دیتی تھیں۔ اس گھر میں ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا، میں اس باغیچے میں پھولوں کے پودے لگایا کرتا تھا۔ مجھے موسمِ بہار میں گیندے اور ڈیلیا کے پھول بہت بھلے معلوم ہوتے تھے۔ اب دورانِ اسیری سنٹرل جیل اڈیالہ، راولپنڈی میں کبھی کبھار باغبانی کر کے اپنا شوق پورا کر لیتا ہوں۔ جیل میں پھولوں کی کیاریوں کو بڑے شوق اور محنت سے سینچتا ہوں۔ جب میرے جیل کے ساتھیوں کی فیملیز ملاقات کے لیے آتی ہیں تو وہ ان کے لیے پھولوں کا تحفہ اسی باغیچے سے لے کر جاتے ہیں اور یوں جیل کی ملاقاتوں میں پھولوں اور محبت کی مہک آتی رہتی ہے۔
مری میں ہمارا گھر مین روڈ سے کافی گہرائی میں تھا۔ چڑھائی اتنی زیادہ تھی کہ بارش میں گھر تک کار میں اُترنا یا بھوکے پیٹ گھر سے مین روڈ تک چڑھنا خاصا دشوار ہوتا تھا کیونکہ اس وقت راستہ ناہموار تھا۔ مری میں ہم بچوں کا سب سے بڑا مشغلہ مہمانوں کی کاروں کو مین روڈ تک لے جانا اور پھر واپس لانا ہوتا تھا۔ ہر بچہ اپنی کار اور اس کے انجن کی طاقت پر ناز کرتا تھا۔ ہمارے پاس ایک امریکن کار پلی متھ تھی جو آج بھی میرے بھانجے غلام مصطفی شاہ کے پاس موجود ہے۔ میں اور میرا بھائی سیّد احمد مجتبیٰ کار کو فُل ریس دے کر کلچ چھوڑتے تو وہ ٹائروں سے دُھواں نکالتی، پتھروں پر سیاہ لائن چھوڑتی ہوئی گولی کی طرح تیزی سے اُونچائی پر چڑھ جاتی تھی۔ گھر میں آئے ہوئے مہمان ہماری اس کارکردگی سے لطف اندوز ہوتے تھے اور یوں ہماری اس مہارت کا بڑا چرچا ہو گیا۔ ہماری کارکردگی اس وقت متاثر ہوئی جب چچا ولائیت حسین کے داماد سیّد اعجاز علی شاہ اور ان کے بھائی سیّد افضال علی شاہ جو بعد میں صوبائی وزیر بھی رہے، پہلی مرتبہ جاپانی ٹویوٹا کار لے کر مری آئے۔ ٹویوٹا کار حجم میں چھوٹی اور کارکردگی میں بہتر تھی۔ ہماری تمام بڑی کاروں کو پیچھے چھوڑ جاتی تھی۔ ہمیں اپنی امریکی کاریں کھٹارا لگنے لگیں۔ افضال علی شاہ کے بیٹے سیّد رضا علی جو صوبائی وزیر ہائوسنگ پنجاب بھی رہے، وہ بھی اپنے والد اور چچا کی طرح کاروں کے دلدادہ ہیں اور ان کی طرح کار بھی نہایت تیزرفتاری سے چلاتے ہیں۔
مری میں ہمارے گھر کے قریب خاندان کے دیگر افراد بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے رہائش پذیر ہوتے تھے۔ ہم ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ ہماری چچی بیگم سیّد ولائت حسین ہمیں پڑھایا کرتی تھیں۔ ان کا تعلق سرمہدی شاہ آف گوجرہ کے خاندان سے تھا۔ انہیں دست شناسی پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اوائل 1940ء میں ایم اے فلسفہ کیا تھا۔۔۔
(جاری ہے )
تبصرے بند ہیں.