کراچی: پاکستان کے صوبے بلوچستان کے شہر تربت کی رہائشی شاری بلوچ 3 جنوری 2022 کو جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ کو نشانہ بنانے والی خودکش حملہ آور بنی۔ یہ واقعہ بلوچ انتہاپسندوں کے ہاتھوں خواتین کے دہشت گردی کے کاموں میں استعمال ہونے کا پہلا معروف کیس تھا۔ شاری بلوچ کا بچپن اور ابتدائی زندگی ایک تعلیم یافتہ خاندان میں گزری تھی، جس نے اسے بہتر مستقبل کے لیے تربیت دی۔
شاری بچپن سے ہی ایک روشن مستقبل کے خواب دیکھتی تھیں اور انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ تاہم، ان کی زندگی کا رخ اس وقت بدل گیا جب ان کی ملاقات حبیطان بشیر بلوچ سے ہوئی، جو کہ ایک دہشت گرد گروپ بی ایل اے کا رکن تھا۔ حبیطان نے شاری کی ذہنی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور شاری کی دنیا کو بدل ڈالا۔
حبیطان نے شاری کو اپنے دیگر خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات میں ملوث کیا، جس سے شاری کا اعتماد تباہ ہوا اور وہ مکمل طور پر اس کے قابو میں آگئی۔ اس نے شاری کو ایران اور افغانستان لے جا کر دہشت گردی کی تربیت دی۔ 26 اپریل 2022 کو شاری بلوچ نے خودکش حملہ کیا، جس میں تین چینی شہری اور ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوگئے۔
شاری کے پیچھے دو معصوم بچے، مہرش اور میر حسن، باقی بچے ہیں جو اب وہی زہریلا ماحول جھیلیں گے جس نے ان کی ماں کو برباد کیا۔ شاری کی کہانی خواتین کے استحصال کا ایک المیہ ہے، جس میں محبت اور جذبات کو دہشت گردی کے ہتھیار میں بدل دیا گیا۔ یہ واقعہ خواتین کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں تباہی کی راہ پر دھکیلنے والے دہشت گردوں کے عمل کا ایک دردناک شاہکار ہے۔
شاری بلوچ کی کہانی نہ صرف اس کی ذاتی بربادی کا قصہ ہے بلکہ ان تمام خواتین کی کہانی ہے جو ایسے دہشت گردوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ ایک یاددہانی ہے کہ دہشت گردی میں خواتین کا استعمال اور ان کا استحصال ایک سنگین مسئلہ ہے، جو عالمی سطح پر توجہ کا طالب ہے۔
تبصرے بند ہیں.