موسم کوئی بھی ہو ٹھہرتا نہیں

40

اقتدار کے ایوانوں میں فریقین کی جو جذباتی و الزاماتی تقاریر ہو رہی رہی ہیں اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ملک میں کوئی مسئلہ نہیں کسی کو کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں۔ سب ہرا ہے سب اچھا ہے جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے غربت بے روزگاری اور نا انصافی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے کمی نہیں لہذا عوام میں مایوسی شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے جس کی ان کے ’’نمائندوں ‘‘ کو کوئی فکر نہیں کوئی ملال نہیں۔ایسا اس لئے ہے کہ ان کا مقصد اقتدار ہے اور دولت کے ڈھیر لگانا ہے۔ دونوں دھڑوں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کو چاہیے کہ وہ سنجیدہ فہمی کا مظاہرہ کریں ملک جس معاشی بھنور میں پھنس چکا ہے اسے باہر نکالنے کی سوچیں یہ طے ہے کہ کوئی بھی ایک فریق یا سٹیک ہولڈر دودھ کی نہریں نہیں بہا سکتا لہذا ان سب کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا مگر وہ بازی جیتنے کے لئے اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہے ہیں اب کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا۔فی الحال دونوں دھڑے باہم دست و گریباں ہیں انہیں سوائے اپنی ذات کے دوسری کوئی بات نہیں سوجھتی۔ ایک کا موقف ہے کہ اس کی سمت درست تھی اسے کیوں اقتدار سے محروم کیا گیا مزید برآں اس پر جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں وہ غلط ہیں دوسرے کا کہنا ہے کہ اس نے جو بھی کیا قانون کے عین مطابق کیا۔ اس طرح ان کی سیاسی لڑائی ختم ہونے میں نہیں آرہی اور عوام بے چارے پسے جارہے ہیں انہیں ہر نوع کی پریشانیاں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔المیہ یہ بھی ہے کہ پورے ملک میں ایک حلقہ ایسا نہیں جو ان کی آپس میں صلح کروا سکے اور معاملات خوش اسلوبی کے ساتھ طے کروا کر لوگوں کو سکھ کا سانس دلوا سکے۔ہماری رائے میں حزب اختلاف کو چاہیے کہ وہ احتجاج کی سیاست کو ترک کرکے بات چیت کی میز پر آئے اگرچہ اس نے مذاکرات کے لئے حکومت کو دعوت دی ہے مگر اس کا شاہ کے وفا داروں نے مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے کہ دیکھا پی ٹی آئی اب جھک گئی ہے قدموں پر گر گئی ہے اسے یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا اب سو چھہتر بھی کھا لئے ہیں اور سو پیاز بھی مگر جب ہم یہ سطور رقم کر رہے ہیں تو پی ٹی آئی نے ہاتھ کھینچ لینے کا اشارہ بھی دے دیا ہے کہ اس کی تضحیک کی جا رہی ہے جبکہ وہ ملک کو بحرانوں سے چھٹکارا دلانے کی خاطر مفاہمتی قدم اٹھا رہی ہے۔ یوں اس کے پاس یہ جواز بھی ہاتھ آگیا ہے کہ وہ تو مزاکرات چاہتی ہے مگر حکومت اس سے بھاگ رہی ہے۔عمران خان اس صورت حال کے پیش نظر مذاکراتی کمیٹی سے خفا بھی بتائے جاتے ہیں لگتا ہے وہ عوامی طاقت سے اپنے مطالبات منوانے کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں انہوں نے سول نافرمانی کا بھی اعلان کر رکھا ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا ؟

بہرحال عقل و فہم کا تقاضا ہے کہ حکومت عوام کی توہین کے بجائے ان کو مشکلات سے نکالے طفل تسلیوں سے کام نہیں چلے گا معیشت کا بْرا حال ہے آئی ایم ایف سے قرضے لے کر زیادہ دیر تک ملکی نظام نہیں چلایا جا سکتا ؟ ہمیں نہیں لگتا پھر یہ بھی ہے کہ دوست ممالک کوئی بہت بڑی رقم دینے کو تیار نہیں ہیں لہٰذا حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں ٹھیک بالکل نہیں!

حقیقت یہ ہے کہ جب تک موجودہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا (یہ بات ہم بیسیوں نہیں سینکڑوں بار عرض کر چکے ہیں) ترقی ہو گی نہ ہی انصاف ملے گا باقی سب کہانیاں ہیں مگر اس نظام کو جس نے ہمارے ذہنوں اور جسموں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور ہر لمحہ ہمارے اوپر غم کے پہاڑ توڑ رہا ہے جس نے ہمارا سکون برباد کر دیا ہے جوانیوں کو پیری کی طرف دھکیل دیا ہے اور وہ قانون و آئین کی پروا ہی نہیں کرتا کو اہل زر و اقتدار کسی صورت بدلنا نہیں چاہتے مگر ایسا بھی نہیں کہ یہ بدلے گا نہیں اسے آخر کار بدلنا ہی ہے کہ یہ صدی تبدیلیوں کی صدی ہے۔ یورپ میں جو عمل صدیوں سے شروع ہو کر یہاں تک پہنچا ہے اسے اور بہتری کی طرف بڑھنا ہے لہٰذا اس کے اثرات ترقی پذیر ممالک پر بھی مرتب ہونے ہیں بلکہ ان کا آغاز ہو چکا ہے نئی ٹیکنالوجی بھی تبدیلی کے جھکڑ چلا رہی ہے۔ سوشل میڈیا نے گویا فکری وعلمی در وا کر دئیے ہیں لہٰذا کب تک عوام پر تکلیف دہ طرز عمل کے ذریعے حکمرانی کی جا سکتی ہے اور اس وقت لوگوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے دراصل اس نظام کی اندرونی شکست و ریخت کو ظاہر کرتا ہے مگر جو قوتیں اسے سہارا دے کر قائم و دائم رکھنا چاہتی ہیں انہیں وقتی طور سے تو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے مستقلاً نہیں کیونکہ انسانی مزاج تبدیلی چاہتا ہے اس میں بیزاری و اکتاہٹ کا عنصر موجود ہوتا ہے پھر جوں جوں ضروریات بڑھتی ہیں ذرائع پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو لوگوں کے رہن سہن میں بھی تبدیلی لاتے ہیں تو پھر کیا ہمارے ارباب اختیار کو اس کا علم نہیں یقینا وہ جانتے ہوں گے مگر شاید انہوں نے آمرانہ حکومتوں کی تاریخ پڑ ھ رکھی ہے کہ بوسیدہ دیوار کو گرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے جو قدغنیں پی ٹی آئی پر لگائی جا رہی ہیں وہ اسی تناظر میں ہوں؟۔ پی ٹی آئی جلسہ کرے یا احتجاج اس پر اعتراض مگر کوئی دوسرا کرے تو خیر ہے لہٰذا یہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے جو اْکھڑ اْکھڑ جا رہی ہیں۔ دانشمندی یہی ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کیے جائیں اس کی حوصلہ شکنی درست نہیں وہ اس پوزیشن میں ہے کہ سیاسی منظر نامہ پر اثر انداز ہوسکے جو اس حقیقت سے انحراف کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اسے باقاعدہ سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی اجازت دے کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں مگر وہ کسی رکاوٹ کے باوجود بھی اپنے ہونے کا ثبوت دے سکتی ہے کئی بار دیئے بھی چکی ہے۔

تبصرے بند ہیں.