پاکستان میں معیشت اور سیاسی و جمہوری عمل مسلسل انحطاط کا شکار ہے۔ سیاسی اور انتظامی اشرافیہ اپنے انداز اور فہم وفراست کیمطابق نتائج کی پروا کئے بغیر فیصلے کرنے میں مصروف ہیں۔اس وقت پاکستان میں سب سے مشکل کام کاروبار کرنا ہے۔ کاروبار کو ریگولیٹ کرنے کے لئے حکومت اور عدالتوں کے علاوہ قریباً 120 سے زائد ریگولیٹری ادارے موجود ہیں۔ جن کا کام ایک بزنس کو یہ بتانا ہے کہ آپ کاروبار کے علاوہ کیا کیا نہیں کر سکتے۔ان اداروں کا ہوناضروری ہے لیکن اس حوالے سے دو بنیادی مسائل ہیں۔ ایک تو طے شدہ دائرکار میں ایک دوسرے کی دخل اندازی اور دوسرا خالص انتظامی ذہنیت کے نتیجے غیر لچکدار رویہ۔ حکومت اگر ملک میں کاروبار کو ترقی کرانا چاہتی ہے تو اسے اپنے اداروں کا مائند سیٹ تبدیل کرنا ہوگا۔ عام طورپر سختی اور ڈرانے دھمکانے کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب حکومت میں بیٹھے افراد اور بیوروکریسی ملکی خزانے کے بجائے اپنی جیبوں کو بھرنا چاہتے ہوں۔ اسوقت معاشی چیلنجز کے تناظر میں درست فیصلے ہی معاشی استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں ریٹیل سیکٹر معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن موجودہ حالات اور پالیسیوں کی وجہ سے اس شعبے کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ مارکیٹوں کو جلد بند کرنے کی پالیسی نے نہ صرف صارفین کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں بلکہ ریٹیل سیکٹر کی فروخت میں 20 سے 30 فیصد تک کمی کی ہے۔ صرف 3 ہفتوں میں جی ڈی پی کو8.1 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے، جبکہ ٹیکس محصولات میں 1.8 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔ یہ نقصان صرف منظم ریٹیل تک محدود نہیں بلکہ حکومت کی مالی اہداف کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ ریٹیل سیکٹر کی کمزوری کا اثر مجموعی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے۔ روزگار کے مواقع سکڑ رہے ہیں اور کاروباروں کے لیے بحالی مشکل ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ شرح سود میں کمی بھی طلب کو بڑھانے میں ناکام ہورہی ہے۔ ایف بی آر نے ابتدائی پانچ ماہ میں 356 ارب روپے کی کمی رپورٹ کی ہے۔ اگر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے کوئی رعایت نہ ملی تو یہ صورتحال عام صارفین پر ٹیکس کے اضافی بوجھ کی شکل میں ظاہر ہو گی۔ حکومت اور منظم ریٹیل کے درمیان ایک نئے نقطہ نظر کی ضرورت ہے، جہاں دونوں ایک دوسرے کو شراکت دار کے طور پر دیکھیں، نہ کہ مخالفین کے طور پر۔ اس باہمی تعاون کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایسی پالیسیاں تشکیل دی جا سکیں گی جو عوامی اور نجی شعبے کے مفادات کو یکجا کر کے معاشی ترقی کا باعث بنیں۔ یہ تعاون اس وقت ممکن ہوگا جب حکومت اور منظم ریٹیل ایک روایتی انتظامی رویے سے نکل کر مسائل کے حل کے لیے مکالمے پر مبنی حکمت عملی اپنائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں فریق کھلے دل سے مسائل پر بات کریں، جیسے شہری ٹریفک کا دباؤ، توانائی کی قلت اور معاشی عدم استحکام۔ اس طرح کی بات چیت نہ صرف مسائل کو سمجھنے میں مدد دے گی بلکہ پائیدار معاشی ترقی کی راہ بھی ہموار کرے گی۔ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے حکومت اور ریٹیل سیکٹر کو مشترکہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ گرین کلین مہم، مالز اور شاپنگ سنٹرزمیں پیوری فائرز کی تنصیب، زیروکاربن پالیسی پرعملدر آمد، کم گریڈ کے فیو ل پرپابندی اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ کے لیے اقدامات، خاص طور پر سموگ کے موسم میں، مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پلاسٹک کی جگہ کپڑے یا دوبارہ استعمال کے قابل بیگز کے استعمال کو فروغ دینا ماحول دوست پالیسیوں کو تقویت دے سکتا ہے۔ ریٹیل سیکٹر میں سرمایہ کاری کا حجم بھی بہت زیادہ ہے۔ حال ہی میں لاہور میں ڈولمن مال اپنی طرز کا جدید اور سب سے بڑا شاپنگ سنٹر بنا ہے۔ایک اندازے کے مطابق مال اور برانڈز کی مشترکہ طور پر 150 ارب کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ لیکن حکومت کی موجودہ پالیسی سے یہ سرمایہ کاری خطرے سے دوچار ہے۔ اس کے علاوہ صرف لاہور کی باقی ماندہ ریٹیل کے حجم کا تخمینہ ایک ہزار ارب سے زائد ہے۔ موسمی خریداری اور تقریبات کے ان مہینوں میں مارکیٹوں کی جلد بندش نہ صرف فروخت کو متاثر کرتی ہے بلکہ منظم ریٹیل کے لیے مقررہ اخراجات، جیسے کرایہ اور تنخواہوں کی ادائیگی، ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ منظم ریٹیل، جو جی ڈی پی کے 20 سے 25 فیصد حصے پر مشتمل ہے اور مختلف ٹیکسز کے ذریعے ملکی معیشت میں بڑا حصہ ڈالتا ہے، پالیسی کی عدم استحکام سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔سموگ کی پالیسی کے تحت گزشتہ تین سال سے ریٹیل سیکٹر 10 بجے بند ہو رہا ہے، لیکن حالیہ اوقات میں 8 بجے بندش سے نہ صرف فروخت میں مزید کمی ہوئی ہے بلکہ ماحولیاتی فوائد بھی محدود رہے ہیں۔ حکومتی تعاون سے پاکستان کا ریٹیل سیکٹر دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے منظم پالیسیاں اور جدید سوچ کی ضرورت ہے۔ لاہور، کراچی، ملتان، فیصل آباد، اور اسلام آباد جیسے شہر عالمی معیار کے شاپنگ مراکز کے طور پر ابھر سکتے ہیں، اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر پالیسیاں بنائیں جو ریٹیل کے لیے سازگار ہوں۔ دنیا کے بڑے شہروں جیسے نیو یارک، دبئی اور ممبئی میں دیر رات تک شاپنگ مراکز اور مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں، جس سے شہری طرز زندگی اور معیشت کو فروغ ملتا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر اس طرز عمل کو اپنایا جائے تو نہ صرف ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا بلکہ روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ ریٹیل سیکٹر صرف معیشت کا حصہ نہیں بلکہ ثقافت اور سیاحت کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ روایتی بازاروں اور جدید مالز کو یکجا کر کے ایسے شاپنگ مقامات بنائے جا سکتے ہیں جو مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی برانڈز کو پاکستان کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے، جس سے روزگار کے نئے مواقع اور جدید ٹیکنالوجی متعارف ہوں گی۔ حکومت اور منظم ریٹیل کو شراکت داری کے ذریعے پالیسی سازی کی طرف بڑھنا ہوگا، جس سے لاہور اور کراچی جیسے شہر عالمی سطح پر شاپنگ ڈیسٹینیشن کے طور پر ابھر سکیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز چاہیں تو پنجاب اس انیشیٹو پرلیڈر بن سکتا ہے۔ حکومت، چاروں صوبائی اور اسلام آباد چیمبرز، ایف پی سی سی آئی اور چین سٹور ایسوسی ایشن کے نمائندوں پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو 90 دنوں کی ایک جامع حکمت عملی تیار کریں۔ جس میں موسمیاتی حالات سے نمٹنے اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کی ٹھوس پالیسی تجاویز سامنے لائی جائیں۔ اس طرح کی شراکت داری نہ صرف معیشت کو مستحکم کرے گی بلکہ پاکستان کی عالمی سطح پر ایک مثبت پہچان بھی بنائے گی۔
تبصرے بند ہیں.