جیسے عوام ویسے حکمران…؟

80

عوام سے متعلق بہت سی باتیں غلط العوام ہیں۔ بے چارے عوام کو معلوم ہی نہیں ہوتا، اور ان سے منسوب کیسی کیسی باتیں پھیلا دی جاتی ہیں۔ حکمران بزورِ شمشیر نافذ ہو جاتے ہیں اور عوام میں یہ مشہور کر دیا جاتا ہے کہ انہیں عوام نے منتخب کیا ہے۔ کبھی مقرر شدہ کو عوام میں منتخب شدہ مشہور کر دیا جاتا ہے اورکبھی منتخب شدہ کو عوام ہی کی ’’رضا مندی‘‘ سے معزول کر دیا جاتا ہے۔ بہرحال مظلوم عوام اپنے نام سے بہت سے محاورے، مقولے بلکہ مقالے سنتے رہتے ہیں۔ عوام صرف سننے پر مامور ہیں، طاقتوروں کے بھاشن ، حکمرانوں کے فرمان … اور پھر ان فرمانوں کی تابع فرمانی کو اپنا ملی فریضہ سمجھ کر سر ہلاتے رہتے ہیں … زبان تو ہلا نہیں سکتے! مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اپنی تصنیف ’’قطرہ قطرہ قلزم‘‘ میں ایک کالم بعنوان ’’ظلم‘‘ میں قلم فرسا ہیں: ’’دنیا میں ہونے والے بیشتر مظالم مظلوم کی پسند کا حصہ بنا دئیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو مظلوم اس ظلم کو برداشت کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھ لیتا ہے۔ ظالم کا سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ وہ مظلوم کو ظلم سہنے، ظلم میں رہنے کی تعلیم دے چکا ہوتا ہے۔ امیر بادشاہ غریب رعایا کو تسلیم، صبر اور رضا کی تعلیم دے کر اپنے مال کو محفوظ کرتا ہے۔ غریب کو صبر کی تلقین کرنے والا خود امیر رہنا پسند کرتا ہے‘‘۔

بعض محاورے اور مقولے ایسے بھی ہیں جن پر تقدیس کی چھاپ لگا دی جاتی ہے تاکہ ان کی محققانہ پڑتال نہ کی جا سکے۔ عقیدے اور عقیدت کے نام پر تحقیقی اذہان پر ’’تسلیم‘‘ کی پٹی چڑھ جاتی ہے۔ یہ سب سے آسان حربہ ہے، مخلوقِ خدا کا بلاروک ٹوک استحصال کرنے کا، ان پر ظلم کے تسلسل کو جاری رکھنے کا … اور ان پر نسل در نسل حکمرانی کرنے کا۔ ظالم بڑی چالاکی سے اپنے ظلم کی توجیہ میں کوئی آسمانی نکتہ لے آتا ہے اور اپنے ظلم کو ’’نصیب کا لکھا‘‘ باور کراتا ہے۔ یوں ظلم کو روا رکھنے والے معاشروں میں اچھے بُرے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے، عوام کا اجتماعی ضمیر سو جاتا ہے۔ تاریخ میں ظلم و تعدی اور حق تلفی کے بہت سے واقعات عقیدت کے پردے میں چھپا لیے گئے۔ ظلم کی واردات ’’مظلوم کی غلطی‘‘ باور کرا دی گئی۔ مؤرخین قلم توڑ کوشش میں رہے کہ کسی طرح ثابت کیا جائے، کہ یہ غلطی مقتول کی تھی وہ قاتل کی تلوار کے سامنے آ گیا۔ طاقتور تو تلوار چلانے میں حق بجانب تھا … تلوار چلانا، تلوار کے زور پر
حکومت کرنا طاقتور کا پیدائشی حق تھا۔

ایسی ہی فکری تخریب کاری کا سانحہ ہے کہ ایک عربی مقولے ’’اعمالکم عُمّالکم‘‘ کو حدیث بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محدثین متفق ہیں کہ یہ حدیث کے الفاظ نہیں، بلکہ قرونِ اُولیٰ میں رائج ایک عربی مقولہ تھا۔ یہ محاورہ عوام پر ایک طنزیہ جملہ ضرور ہے، لیکن یہ کوئی دینی کلیہ نہیں، کہ اسے تقدیس کے رنگ میں پیش کیا جائے۔ یہ مقولہ سنا کر عوام کو مطمئن کیا جاتا ہے کہ تم اپنے حکمرانوں کے افعال و کردار کو نہ دیکھو، بلکہ تم اپنے ’’کرتوت‘‘ دیکھو۔ اب چونکہ یہ طے کہ تمہارے اعمال و کردار درست نہیں، اس لیے تمہارے حکمران بھی ایسے ہی رہیں گے، گلہ کس بات کا؟ یوں حکمرانوں کے کاسہ لیس مبلغین معاشرے کی بربادی کا سارا ملبہ عوام کے سر پر ڈال دیتے ہیں اور غلط حکمرانوں کو اس مقولے کی باریک گلی سے فرار ہونے کا محفوظ راستہ Safe exit دے دیتے ہیں۔ اگر کوئی روحِ دین سے تمسک رکھتا ہو تو اُس کے لیے اِس طریقہِ واردات کو پکڑنا کچھ مشکل نہیں۔ بڑی واضح اور مستند حدیثِ مبارکہ ہے: ’’تم میں سے ہر شخص راعی ہے، اور اُس سے اُس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا‘‘۔ بات واضح ہو گئی کہ ہر علاقے کا والی اس علاقے کا راعی (رکھوالا) ہے، بس اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ یعنی اپنی رعایا کے ظاہری اور باطنی احوال کا وہ ذمہ دار ہے۔ گھر میں باپ اپنے بچوں کا راعی ہے، اس سے سوال ہو گا۔ جہاں بچوں کی ظاہری خوراک کی فراہمی کے بارے میں سوال ہو گا، وہاں ان کی اخلاقی تربیت کے بارے میں بھی اس سے پوچھا جائے گا۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر یہی باز پرس حکمرانوں سے ہو گی۔ عوام اگر اخلاقی پستوں میں غرق ہیں تو حکمرانوں سے سوال ہو گا، کہ انہوں نے عوام کے اخلاق سدھانے کے لیے کیا سامان کیا۔ اصل محاورہ تو یہ ہے: ’’الناس علیٰ دین ملوکھم …‘‘ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔ اسے بھی بعض لوگ حدیث کے طور پر بیان کرتے ہیں، لیکن تحقیق یہی ہے کہ یہ بھی ایک عربی مقولہ ہے۔ اسی قبیل کے مقولے ہماری زبان میں بھی ہیں … جیسے کہا جاتا ہے: ’’جیسا راجہ ویسی پرجا‘‘، یعنی جیسا حکمران، ویسی رعایا۔

القصہ، عوام کی پس ماندگی کا ملبہ عوام ہی پر ڈالنا، انہیں مطعون و ملعون قرار دینا اور بادشاہوں کو ظلِ سبحانی کے خطابات سے نوازتے رہنا، سرکاری گزٹ لکھنے والے لکھاریوں کا پرانا دستور ہے۔ ظلم کے تسلسل کا یہ دستور لکھنے والے جہاں عوام کے مجرم ہیں، وہاں دین کے اخلاقی خزانے کے خائن بھی ہیں۔ لفظوں اور محاوروں سے اپنے ڈھب کی چیزیں نکالنا، ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرنا اور مظلوموں پر طعن و تشنیع کرنا ایک تحریری خیانت ہے۔ لفظ تو امانت ہوتے ہیں … ظاہر کی دنیا میں یہ باطن کی امانت ہیں۔ لفظ جن معنوں کے امین ہوتے ہیں، وہ معنی ان سے جدا کرنا ایسا ہی جیسے کسی کے بچے کو کوئی خرکار اغوا کر کے لے جائے۔ جس طرح ایک بچے کو اس کے نام و نسب سے محروم کرنا ایک بھیانک جرم ہے، اس طرح لفظ کو اس کے معانی سے محروم کرنا بھی ایک بڑے درجے کا جرم ہے۔ انسانوں کی طرح لفظ بھی اپنا نسب رکھتے ہیں۔ لفظ شعائر اللہ نہ سہی، شعائرِ انسانی ضرور ہیں۔ ایک صحیح النسب انسان ہی لفظوں کی حرمت پر پہرہ دیتا ہے۔

’’اعمالُکم عُمّالکم‘‘ کے الفاظ اگر درست تناظر میں دیکھیں جائیں تو اِس کے درست معانی یہ برآمد ہوتے ہیں، کہ تمہارے اعمال تمہارے وجود پر حکمران ہیں۔ اور دینی مناسبت سے یہی مفہوم درست ہے کیونکہ قرآن کریم میں درج ہے: کل بما کسبت رھینہ … ہر ذی نفس اپنے عمل کے بدلے میں رہن ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں، اسی کا کیا دھرا ہمیں بھگتنا ہوتا ہے۔ ہمارے برے اعمال کے نتائج ہم پر ایک کوتوال کی طرح کوڑے برساتے ہیں۔
مبلغین و مفکرین سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ دین کی ایسی تاویلیں نہ کریں جس سے حکمرانوں کو عوام پر ظلم کرنے کا کوئی ’’دینی‘‘ جواز مل جائے۔ براہِ کرم حکمرانوں کو عوام کی جواب دہی سے جدا نہ کریں۔ انہیں ماورائی مخلوق قرار نہ دیں۔ اشرافیہ کو اشرف قرار نہ دیں۔ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے دستبردار ہونے کی تلقین نہ کریں۔ تسلیم و رضا اور صبر و قناعت کا سبق طاقتوروں کو دیا جاتا ہے، مظلوموں اور مجبوروں کو نہیں … مظلوموں اور مجبوروں کے حق میں آواز اٹھائی جاتی ہے۔ مظلوم و مجبور کسی اور ریاست میں بھی ہوں تو اُن کے حق میں کھڑے ہونے کا، اُن کے حقوق کے لیے جہاد کا حکم ہے۔ جہاد کی اصل روح یہی ہے۔ حکمران کا کردار دیکھا جاتا ہے، حکمران کی عبادت اور تلاوت نہیں دیکھی جاتی۔ حکمرانوں کی نجات قرآن پڑھنے میں نہیں، قرآن پر عمل کرنے میں ہے۔ جب وہ قرآن پر عمل کرے گا تو اپنی طاقت اور حقِ حکمرانی کو ایک امانت سمجھے گا۔ ایک ایمان دار تاجر ہو یا حکمران، اسے امانت واپس لوٹانے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے!!

تبصرے بند ہیں.