جاپان میں پاکستان کے سفیر محترم رضا بشیر تارڑ صاحب ہیں۔انہوں نے 1987ء میں فارن سروس جوائن کی تھی۔ اس دوران آپ اہم ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ منیلا، بروسلز، نیویارک اور کینیڈا سمیت مختلف ممالک میں اہم سفارتی عہدوں پر براجمان رہے۔ سفیر صاحب سے میری ملاقات طے تھی۔ صبح سویرے میں ملک نور صاحب کے ہمراہ ٹوکیو میں واقع پاکستانی سفارت خانے کیلئے روانہ ہوئی۔ میں اس سے قبل کچھ سفارت کاروں سے مل چکی ہوں۔ یہاں آنے سے قبل میراتاثر تھا کہ یہ سفیر صاحب کوئی سوٹڈ بوٹڈ، انگریزی میں نپی تلی گفتگو کرنے والے آدمی ہو ں گے۔ ایسے جیسے افسر شاہی یا دفتر خارجہ کے اکثر بابو ہوتے ہیں۔ تاہم میرا اندازہ درست نہیں تھا۔ ملاقات کے کمرے میں چند منٹ بیٹھے تھے کہ سفیر صاحب تشریف لے آئے۔ وہ شلوار قمیض میں ملبوس تھے ۔ چہرے پر داڑھی ۔ ماتھے پر گہرا محراب۔ سفیر صاحب نے چھوٹتے ہی جامعہ پنجاب میں میرے تدریسی شعبے کے بارے میں دریافت کیا۔اس کے بعد میرے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا موضوع معلوم کیا۔ میں نے اپنی یاداشت پر زور ڈالا اور ایک دہائی پرانا موضوع انہیں بتایا۔ انہوں نے میری تحقیق سے متعلق مزید چند سوالات کئے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں کسی جامعہ کے پروفیسر کے سامنے بیٹھی ہوں۔ میرے تحقیقی مقالے سے متعلق ان کے سوالات ختم ہوئے تو میں نے انہیں یہ بات کہہ ڈالی۔ وہ ہنس دئیے۔ پھر کسی پروفیسر سے ملاقات کا پرانا قصہ سنانے لگے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ایچیسن کالج کے زمانے کے کچھ واقعات سنائے۔ دوسرے ممالک میں اپنی سفارتی تعیناتیوں کے کچھ واقعات بھی بیان کئے۔ بہرحال، سفیر صاحب سے طویل نشست رہی۔ وہ اردو، پنجابی اور انگریزی میں گفتگو کررہے تھے۔ مجھے ان کا انداز گفتگو کچھ عوامی سا لگا۔ ملاقات میں سفارت خانے کے ایک افسر آشہج لقمان بیٹھے نوٹس لیتے رہے۔
میری دلچسپی کا محور یہ تھا کہ جاپا ن میں پاکستانی افرادی قوت اور طالب علموں کے لئے کس قدر مواقع دستیاب ہیں۔ سفیر صاحب نے بتایا کہ جاپان میں افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ پتہ یہ چلا کہ جاپان کو تقریباً دو اڑھائی لاکھ افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے تاخیر سے افرادی قوت جاپان بھجوانے کا کام شروع کیا ہے۔ابھی کچھ برس سے حکومت پاکستان اس ضمن میں متحرک ہوئی ہے۔یہ گفتگو سنتے ہوئے مجھے بی۔بی۔سی کی ایک پرانی رپورٹ یاد آگئی۔ رپورٹ کے مطابق جاپان میں کام کرنے والے معمر افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔اندازہ ہے کہ 2030 ء تک جاپان 64 لاکھ افرادی قوت سے محروم ہو جائے گا۔ اس افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لئے حکومت جاپان کو غیر ملکی ملازمین ڈھونڈنا پڑیں گے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ پاکستان کی افرادی قوت کیلئے جاپان میں بہت مواقع موجود ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ جاپانی کمپنیوں میں نوکری حاصل کرنے کیلئے ایک روپیہ بھی نہیں دینا پڑتا۔مفت ویزہ ملتا ہے اور اکثر و بیشتر نوکری دینے والی کمپنیاں ٹکٹ بھی خود فراہم کرتی ہیں۔ملک نور صاحب کہنے لگے کہ اس مثبت تصویر کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس معاملے میں ایجنٹ شامل ہو جاتے ہیں ۔ یہ ایجنٹ بھولے بھالے شہریوں سے بیس ، پچیس لاکھ اور بسا اوقات اس کے بھی زیادہ رقم لے اڑتے ہیں۔ سفیر صاحب بولے کہ عوام کیوں ایسے لوگوں کے دھوکے میں آتے ہیں؟ یہ بھی فرمایا کہ آپ ایسے لوگوں کی ضرور نشاندہی کریں۔
تعلیم کے حوالے سے بات چلی تو رضا تارڑ صاحب نے بتایا کہ جاپان میں پاکستانی طالب علموں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔ حکومت جاپان کااسکالر شپ پروگرام بھی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے شعبہ تعلیم کے حوالے سے کچھ مفید مشوروں سے نوازا۔ جاپانی زبان کی اہمیت پر زور دیا۔ بتایا کہ کوئی جاپان آنا چاہتا ہے تو اسے جاپانی زبان سیکھنی چاہیے۔ اس طرح اس کا معاملہ بہت آسان ہو سکتا ہے۔ جامعات میں ووکیشنل ٹریننگ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں تعلیم کیساتھ ساتھ ہنر مندی نہایت ضروری ہے۔ آپ ہنر مند ہیں تو آپ کیلئے جاپان میں نوکری حاصل کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ بتانے لگے کہ وہ جاپانی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو پاکستان کی طرف مائل کرنے کیلئے ان سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔یہ بھی پتہ چلا کہ جاپان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت گنجائش اور مواقع موجود ہیں۔ سفیر صاحب کا خیال ہے کہ پاکستان میں دینی مدارس کو جامعات کیساتھ منسلک ہونا چاہیے، تاکہ دینی تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم دنیاوی تعلیم اور exposure بھی لے سکے۔ عرض کیا کہ جامعہ نعیمیہ نے دین کیساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا اہتمام بھی کیا ہوا ہے۔ یقینا کچھ اور مدارس میں بھی یہ صورتحال ہو گی۔ گفتگو میں یہ ذکر بھی آیا کہ پاکستانی افرادی قوت کیساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کسی کمپنی سے معاہدہ کر کے آتے ہیں لیکن ادھر ادھر نکل جاتے ہیں۔ بقول سفیر صاحب مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ قدم بہ قدم آگے بڑھنے کے بجائے الہ دین کے چراغ یا پارس پتھر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ میرے شعبہ فلم اینڈ براڈ کاسٹنگ کو جاپانی یونیورسٹیوں کیساتھ منسلک کرنے میں میری مدد کیجئے۔ نہایت فراخ دلی سے انہوں نے اس حوالے سے حامی بھری اور اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ سفیر صاحب کیساتھ ملاقات اچھی رہی۔ یہ ملاقات کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ ان کی مہربانی جو انہوں نے اس قدر وقت دیا۔
سفارت خانے میں میری ملاقات کچھ پاکستانی طالب علموں سے بھی ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان انتظار گاہ میں بیٹھے ہیں۔میری نظر پاس پڑے دو بیگز پر پڑی۔یہ پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے لیپ ٹاپ بیگ تھے۔ میں سمجھ گئی کہ یہ طالب علم ہیں۔ یہ نوجوان حکومت جاپان کی اسکالر شپ پر یہاں آئے تھے۔ میں نے اپنی معلومات کے لئے ان سے کچھ سوالات کئے۔ ایک بچی کا تعلق جامعہ پنجاب سے تھا۔ ایک بچہ ملتان کے کسی کالج کا فارغ التحصیل تھا۔مجھے ٹھیک سے یاد نہیں لیکن باقی دو لڑکے کسی دوسرے صوبے کے پسماندہ علاقوں سے تھے۔ پتہ یہ چلا کہ انہیں اس اسکالر شپ کو حاصل کرنے میں کم و بیش ایک سال لگا۔ ان کے امتحانی نمبر اچھے تھے۔ تاہم اتنے اچھے نہیں کہ جنہیں غیر معمولی کہا جا تا ہے۔ مجھے ان نوجوانوں سے مل کر اچھالگا۔ واپسی پر میں سوچتی رہی کہ یہ سب عام سے متوسط گھرانوں کے بچے ہیں۔ ان میں دو ایک مجھے زیریں طبقے کے بچے لگے ۔ خیال آیا کہ محنت اور جدوجہد بھی کیا شے ہے۔کیسے ایک انسان محنت کے بعد کوئی بھی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔یہ انتہائی عام سی شکل و صورت اور عام سے حلیے والے بچے اپنی محنت سے آج جاپان میں بیٹھے ہیں۔ چند سال بعد جب یہ ڈگری لے لیں گے تو زندگی ان پر کتنی مہربان ہو جائے گی۔ ان میں سے بہت سے اپنی اور اپنے خاندان کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے۔ پھر مجھے اپنے برسوں پرانے کچھ طالب علم یاد آگئے۔ ایسے طالب علم جو مفلسی کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کے پاس فیس دینے کیلئے چند ہزار روپے تک نہیں ہوتے تھے۔ آج یہ طالب علم اپنی محنت اور جدوجہد کیساتھ معاشرے میں اعلیٰ مقام بنا چکے ہیں۔ کچھ مقابلے کا امتحان پا س کر کے سرکاری افسر بنے بیٹھے ہیں۔
کچھ سرکاری یا نجی محکموں میں باعزت عہدوں پر فائز ہیں۔ کچھ بیرون ملک نوکری کر رہے یا تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔بے شک قرآن پاک میں میرے رب نے سچ فرمایا ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.