گزشتہ ہفتے میں نے حال ہی میں بے پناہ رسوائیاں اپنے دامن میں سمیٹ کر ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے سے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں پاکستان کے ایک انتہائی نیک نام چیف جسٹس اے آر کارنیلیئس (مرحوم) کا ذکر کیا تھا ، میں نے عرض کیا تھا ‘‘ہماری عدلیہ میں کسی چیف جسٹس نے کوئی گریس قائم کی وہ اے آر کازنیلیئس تھے، اس کالم کی اشاعت پر بیشمار قارئین نے ذاتی طور پر اور بذریعہ سوشل میڈیا مجھ سے رابطہ کیا، اْن کا یہ گلہ بالکل جائز تھا کہ عدلیہ کی گریس کے حوالے سے میں ایک اور چیف جسٹس رانا بھگوان داس کو کیوں بھول گیا ؟ میں نے اْن سے معذرت کی ، یہ درست ہے عدلیہ کی تاریخ میں رانا بھگوان داس کا نام بھی سنہری حروف سے لکھا گیا ہے ، میں اپنے اگلے کالم میں اْن کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا بطور ایک جج سپریم کورٹ کے علاوہ بطور چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن بھی کتنے اعلیٰ کردار کا اْنہوں نے مظاہرہ کیا , ہماری عدلیہ میں بس دو چار ناموں کے علاوہ باقی سارے نام سیاہ حروف سے ہی لکھے گئے ہیں ، اب دیکھیں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان اپنا نام کن حروف سے لکھوانا پسند فرماتے ہیں ؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں فائر عیسیٰ کی طرف سے کسی تعصب کے نتیجے میں نکالے جانے والے دو ججوں منصور علی شاہ اور منیب اختر کو اس کمیٹی میں دوبارہ شامل کرنا نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا یقینا اچھا اقدام ہے، جسے پذیرائی بھی مل رہی ہے ، مگر اْن کے کسی ایک آدھ ابتدائی اچھے عمل سے فوری طور پر ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکتے بطور چیف جسٹس آف پاکستان اْن کا ہر عمل ہی مجموعی طور پر سراہا جانے والا ہوگا، اللہ کرے ایسا ہی ہو، ہم یہ چاہتے ہیں وہ اگر اے آر کارنیلیس یا رانا بھگوان داس نہ بھی بنیں ظاہر ہے موجودہ حالات میں وہ بن بھی نہیں سکتے مگر ہماری یہ خواہش ہے وہ فائز عیسیٰ اور ثاقب نثار بھی نہ بنیں ، بلکہ اگرہو سکے تو سابقہ کچھ چیف جسٹس صاحبان خصوصاً پچھلے دو چیف جسٹس صاحبان کی وجہ سے عدلیہ اپنے جس مقام سے اچھی خاصی گر گئی ہوئی ہے اْس کا کچھ ازالہ کریں ، مجھے اس بات کی خوشی ہے اْنہوں نے موجودہ متنازع سیاسی حکمرانوں کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت نہیں کی جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ، مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے اْن کی تقرری پر اْن سے سینئر دو ججوں منصور علی شاہ اور منیب اختر نے بطور احتجاج استعفیٰ بھی نہیں دیا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ، یہ یقینا خوش آئند فیصلے ہیں جنہوں نے مْلک کو مزید ایک بڑے آئینی و سیاسی بحران سے بچا لیا ، ججوں کی طرف سے یقینا یہ پیغام دیا گیا وہ مل کر کام کریں گے اور سینئر جونیئر کا کوئی ایسا تعصب اپنے دل و دماغ میں نہیں رکھیں گے جس سے بکھری ہوئی بدنام عدلیہ مزید تباہی کے راستے پر چل نکلے ، سمجھدار ججوں نے متنازعہ سیاسی حکمرانوں کی اْس مبینہ چال کو بھی ناکام بنا دیا ہے جس کے مطابق وہ یہ سوچ کر بیٹھے ہوئے تھے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس مقرر کئے جانے پر اْن سے سینئر دو ججز منصور علی شاہ اور منیب اختر فوری طور پر مستعفی ہو جائیں گے جس کے بعد سپریم کورٹ سے اپنے من پسند فیصلے لینے میں اْن کی رہی سہی رکاوٹیں بھی دور ہو جائیں گی ، ججوں کی دْور اندیشی نے متنازعہ سیاسی حکمرانوں کا یہ مبینہ مشن پورا نہیں ہونے دیا، سْنا ہے اپنے اس مبینہ مشن کی ناکامی کے بعد وہ اب ایک ستائیسویں آئینی ترمیم لانے کی تیاری کر رہے ہیں ، یہ ترمیم بھی وہ منظور کروا لیں گے ، جب تک مولانا فضل الرحمان جیسے فنکار ، وکلاء کے بکاؤ مال اور کچھ’’سیاہ سی لوٹے ‘‘سسٹم میں موجود ہیں حکمرانوں یا اْن کے مالکان کو اپنے من پسند فیصلے کروانے میں کسی رکاوٹ کا سامنا نہ ماضی میں کرنا پڑا ہے نہ مستقبل میں کرنا پڑے گا ، موجودہ متنازعہ حکمرانوں کو اس وقت اپنے مالکان کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے چنانچہ وہ کوئی ایسی ترمیم کیوں نہیں لے آتے جس کے مطابق غیر معینہ مدت تک چیف جسٹس آف پاکستان کا اضافی عہدہ اْس وزیراعظم پاکستان کے پاس رہے جو اپنے ’’ مالک ‘‘کا اندھا دْھند وفادار ہوتا ہے ؟ جیسے چھبیسویں آئینی ترمیم سے نئے چیف الیکشن کمشنر کی آمد تک یہ عہدہ پرانے چیف الیکشن کمشنر کے پاس ہی رہے گا، پاکستان میں کسی کو اپنی ذاتی وفاداریوں کا صلہ دیتے ہوئے کوئی یہ بھی نہیں سوچتا پاکستان کی مزید کتنی تباہی اْس نے کرنی ہے ؟ راجا سکندر سلطان نے جو خدمات سرانجام دیں وہ شاید فائز عیسیٰ بھی نہ دے پاتے ورنہ آئین اور قانوں کی مذید دھجیاں اْڑاتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد فائز عیسیٰ کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا جاتا ، اور پرانے چیف الیکشن کمشنر کو وزیراعظم کا مشیر برائے خرد برد مقرر کر دیا جاتا، بہرحال یہ حکمرانوں کے اپنے معاملات ہیں جو اْن کے ذاتی مفادات کے مطابق چلتے رہیں گے ، مْلک اگر نہیں چل رہا اس میں سارا قصور عوام کا ہے جو اپنے’’صاف سْتھرے حکمرانوں‘‘کو قبول نہیں کر رہے ، ایک انتہائی اعلیٰ اقدار کے حامل مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے ایک برطانوی دانشور سر تھامس مور کے ایک قول کا حوالہ دیتے ہوئے بالکل درست فرمایا ہے ’’جب سیاستدان اپنے ضمیر فروخت کر دیتے ہیں وہ مْلک کو انتشار کی طرف لے جاتے ہیں ‘‘ ، محترم جج صاحب کی خدمت میں عرض ہے صرف سیاستدان ہی نہیں کوئی بھی اپنے ضمیر کو جب فروخت کر دیتا ہے اْس کا نقصان کسی نہ کسی صورت میں مْلک اور معاشرے کو ہی ہوتا ہے ، مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمارے ضمیر مْردہ ہو چکے ہیں اور مْردہ ضمیر بہت سستے بک جاتے ہیں جیسے مْردہ برائلر مْرغیاں بہت سستی بک جاتی ہیں ، بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے سپریم کورٹ کو ایک نئی زندگی ملی ہے ، موت کا فرشتہ واپس چلا گیا ہے ، موجودہ ججوں کا اب یہ فرض ہے کچھ ایسے اقدامات کریں جن کے نتیجے میں کچھ بھلا اب عام لوگوں کا بھی ہو جائے ، خاص لوگوں کے بھلے کر کر کے اپنی زندگیاں تو بہت سنوار لی گئی ہیں ، کچھ آخرت بھی اب وہ سنوار لیں۔
تبصرے بند ہیں.