احمد خان کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ وہ غلطی سے ایک ایسے ڈیپارٹمنٹ کا انتخاب کر چکا جو اس کا مزاج نہیں۔ ’’نئی بات‘‘ میڈیا گروپ میں HRکی ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے اس نے اپنی عمر سے زیادہ کام کر ڈالے۔ محنتی اور کام کا دھنی ہے۔ اس کے اندر ایک ایسی خوبی ہے جس کا شاید اسے بھی علم نہیں۔ وہ جب کھانے، پینے یا دوستوں کے ماحول میں ہوتا ہے تو دوران گفتگو وہ ادب سے لے کر شاعری تک اور ایسے موضوع جن پر بہت کم لوگوں کو دسترس حاصل ہوتی ہے بڑے کھلے دل اور وژن کے ساتھ بات کر جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں میں نیو نیوز کے لالہ ناصر اور احمد خان چائے گپ شپ کر رہا تھا کہ اچانک احمد خان بولا… اسد بھائی!یہ کیا زندگی ہے؟ اس موبائل کے فیس بک اور سوشل میڈیا نے ہمیں تمام رشتوں سے محروم کر دیا ہے، گھر جائو تو کوئی کسی سے بات نہیں کرتا، سب موبائل پر لگے ہوتے ہیں۔ حال پوچھو تو زبان سے جواب آتا ہے جبکہ آنکھیں مسلسل موبائل کی طرف ہوتی ہیں۔ یار کہاں گئیں وہ خوش گپیاں، رشتوں کا آپس میں گلے ملنا آج کھانے کی میز پر جائیں تو سب گھر والے اکٹھا کھانا تو کھا رہے ہوتے ہیں مگر اک خاموشی کہ سب کھانے کے ساتھ ہر کوئی موبائل پر لگا ہوا ہے۔ ناشتے کی میز پر چاہے دس افراد ہی کیوں ہوں مگر وہاں ہو کا عالم ہے… آپ کسی بھی جگہ چلے جائیں۔ کسی کے مرنے پر افسوس کرنے جائیں تو وہاں بھی لوگ موبائل سے چمٹے ہوتے ہیں۔ احمد خان کی فکر انگیز باتوں نے مجھے ہی نہیں لالہ سمیت سب کو یہ احساس دلایا کہ آج کے دور کے اس بیمار موبائل نے ہر ایک کو بیمار کر رکھا ہے۔ بچے سے لے کر بوڑھے تک ہر کوئی اس کی دسترس سے باہر نکل ہی نہیں پا رہا۔ اب تو ظلم کی انتہا یہ ہے کہ تین سے پانچ سال کے بچے اور بچیاں بھی ان کو ہاتھوں میں پکڑے بغیر دودھ اور کھانا نہیں کھاتے اور ابھی سے وہ موبائل سے اس طرح دوستی کئے ہوئے ہیں۔ ان کا تو یہی سب کچھ ہے… میرے نزدیک اس موبائل نے جہاں تمام رشتوں میں دراڑیں ڈالیں… وہاں ہمیں کلچر سے بھی ہمیں محروم کر دیا اور اس موبائل نے ہر جگہ تقسیم کرتے ہوئے گھر کا سب سے بڑا فرد بن گیا اور دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ ہمارے لوگوں کو موبائل استعمال کرنے کی آگاہی نہیں۔ اس کے بے دریغ استعمال نے معاشرے اور ماحول میں ایک افراتفری کے ساتھ کئی سڑکوں پر حادثات کو جنم دے رکھا ہے۔ سائیکل والے سے لے کر موٹر بائیک پر بیٹھے اور گاڑی چلانے کے عمل تک میں دیکھا گیا ہے کہ وہ فون پر لگے ہوئے ہیں۔ یہی تو خطرناک رحجان ہے جو گھروں سے لے کر سڑکوں تک پروان چڑھ رہا ہے۔ قانون تو اپنی جگہ لوگوں نے تو خود اپنی زندگیوں سے کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ وہ گاڑی چلاتے وقت موبائل میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ آگے پیچھے آنے والی ٹریفک کو بھی بلاک کئے ہوئے ہیں اگر دوسری طرف دیکھیں تو یہاں ایسی کلاس بھی موجود ہے جو اس کی تباہی سے بہت خوفزدہ اور سمجھتی ہے کہ جہاں یہ بے سکونی ہے تو وہاں ان کے زندگی کے نظام کو بھی ادھیڑے ہوئے ہے۔
افراتفری کے اس ماحول میں ہم وہ سب کچھ بھول چکے ہیں جن کے سہارے آگے کی طرف قدم بڑھانے تھے۔ کیا انسانی رشتوں سے لے کر انسانی ہمدردی سے لے کر اپنے بزرگوں کے دیئے ویژن، مشن، اقوال زریں، ان کی یادگاریں، ان کے بنائے ادارے، ان کی اہمیت اور افادیت، خوبصورت تو ماضی کو بدصورت حال میں بدلتے ماحول میں ہم نے وہ سب کچھ کھو دیا، کیا اپنے اثاثے، اپنی وراثتیں، اپنی محبتیں، اپنے قصے کہانیاں، اپنی وہ روایات جن کی بنیادوں پر ہم عمارتیں تعمیر کرنے کی طرف جا رہے تھے وہ سب کچھ اپنے ہی ہاتھوں ختم کر بیٹھے… کیا انسان مایوس ہو گیا ہے۔ اب کیا قدر کرنے والے لوگ نہیں رہے اور بے قدری کی اس فضا میں بڑھتی بے توقیریاں ایک سے دوسرے انسان کے درمیان بڑھتی دوریاں اور ان کے درمیان قائم رشتوں میں احساس اور جذبے ختم ہو گئے۔ رویئے بدل گئے۔
میری نگاہیں بہت کچھ ڈھونڈ رہی ہیں جو موبائل نے گم کر دیئے۔ ان رشتوں ناتوں کو جو مجھ سے کھو گئے… میری نگاہیں روزانہ ان کو ڈھونڈتی ہیں جو موبائل کی زندگی سے پہلے گھروں میں پیار و محبت تقسیم کیا کرتے تھے اور پھر بقول احمد خان کے میری نگاہیں روزانہ ان کی تلاش میں جب بہنیں بھائیوں پر جان لٹاتی تھیں اور جب بھائی بہنوں پر سب کچھ نچھاور کر دیتے تھے۔ میری نگاہیں ان کو بھی ڈھونڈتی ہیں جب گھروں میں بزرگوں یعنی دادا… دادی… نانا اور نانی کے بغیر صبح نہیں ہوتی تھی۔ جب شام کو والدین کے ساتھ گپ شپ کرتے کرتے رات ڈھل جاتی اور رات کے پہروں میں ماں باپ اپنی اولادوں پر رضائیاں اور چادریں دے کر ان کو گرمیوں کی تپش اور سرد راتوں سے ڈھانپ دیا کرتے تھے۔ میری نگاہیں ان سرسبز کھیتوں میں لہرتی سرسوں، گندم اور مکئی کے پودوں اور سورج مکھی پھول کو سورج سے ٹکراتے دیکھتی تھیں۔ میری نگاہیں تو متلاشی ہیں اس ماحول کی جب عید کا چاند دیکھنے کے لئے چھتیں بھر جاتی تھیں… جب عید کا چاند دیکھتے ہی عید ہے عید ہے کا شور گلیوں اور محلوں میں گونج اٹھتا تھا۔ میری نگاہیں تو وہ منظر ڈھونڈتی ہیں جب گڈے اور گڈی کے بیاہ ہوا کرتے تھے۔ دونوں گھروں میں کھانے پکتے تھے، پورے محلے میں شادی کا ذکر ہوتا تھا۔ کیا اس موبائل نے سب کچھ ختم کر دیا ہے؟
اور آخری بات …!
احمد خان یہ بناوٹی زندگی، یہ ڈراموں جیسے کردار، یہ میک اپ زدہ چہرے اور ان چہروں پر پھیلی پریشانیاں، الجھنیں، اداسیاں، فکرات کی لہر، مجھے بھی نہ کچھ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ میری آنکھیں بھی ان چہروں کی متلاشی ہیں۔ جو کبھی بڑے رشتے بناتے تھے، بڑے یاروں کے یار تھے۔ چہرے بغیر میک اپ کے مسکراتے تھے، نہ اداسیاں، نہ غم، نہ فکرات۔ میری آنکھیں تو ان چہروں کی متلاشی ہیں جنہوں نے اس پاک دھرتی کو بنایا تھا… اس کو آزادی دلوائی تھی، اس پر لاکھوں جانوں کو قربان کیا گیا تھا، جانثاروں کی گنتی ختم نہیں ہوتی تھی…یہ تاریخ بھی اس موبائل فون نے چھین لی ہے… رہے نام اللہ کا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.