حکومتی موقف کے ساتھ ساتھ ہر سمجھدار اور محب وطن شہری کا یہ نظریہ اور مطالبہ رہا ہے کہ ناصرف نو مئی بلکہ ایسے تمام واقعات، جن میں جتھے سرکاری املاک اور تنصیبات پر حملہ آور ہوں، کا سختی سے نوٹس لیا جانا چاہیے اور اس قسم کے کرداروں کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری عدلیہ ان لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتائو دکھا دیتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ حوصلہ پکڑتے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر ریاست دشمنی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔
ملک کی 77 سالہ تاریخ میں ہم نے فوجی آمریتوں کے ساتھ ساتھ بدترین جمہوریتوں کا بھی مشاہدہ کیا ۔ ان ادوار میں حکومت کی مخالفت میں بہت بڑے بڑے مظاہرے بھی ہوتے رہے لیکن سانحہ نو مئی کی طرز پر کارروائی کرنے کی سوچ کسی بھی سطح پر موجود نہ تھی ۔ اسی طرح جرائم پیشہ افراد کی جانب سے تو پولیس پر مسلح حملہ کر کے اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کی کوشش کرنے کی باتیں تو سنتے رہے ہیں لیکن کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے ایسی حرکت کچھ نئی محسوس ہوتی ہے۔ شائد بلکہ یقینا یہ توڑ پھوڑ، ہلڑ بازی اور تخریب کاری کے الزامات میں گرفتار افراد کے ساتھ عدالتوں کے نرم رویوں کا ہی نتیجہ ہے کہ بات گرفتار ملزمان کو پولیس حراست سے زبردستی چھڑا لینے تک جا پہنچی ہے۔
گزشتہ روزسنگجانی ٹول پلازہ پر نامعلوم مسلح افراد نے قیدیوں کو لے جانے والی تین جیل وینز پر گھات لگا کر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا اورپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تین اراکین صوبائی اسمبلی سمیت کئی قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
ڈی چوک پر حالیہ احتجاج کے دوران حراست میں لیے گئے 82 قیدیوں کو عدالت میں پیشی کے بعد اٹک جیل منتقل کیا جا رہا ہے۔ وین میں سوار افراد میں ایم پی اے انور زیب، ملک لیاقت اور یاسر قریشی کے ساتھ صوبہ خیبرپختونخواہ کے وہ سرکاری ملازمین اور پولیس افسران بھی شامل تھے جو ریاست پر حملہ کے الزام میں گرفتار تھے۔ مسلح حملہ آورں کی جانب سے پولیس کی گاڑیوں کے ٹائروں کو نشانہ بنایا گیا، جس سے وہ رکنے پر مجبور ہو گئے، جبکہ اس میں سوار پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ پولیس ترجمان کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد 25 سے 30 کے درمیان تھی، وہ مسلح تھے اور قیدیوں کو چھڑوانے کے لیے فائرنگ کرتے رہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا، جس کا مقصد پی ٹی آئی کے حالیہ مظاہروں سے متعلق دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث افراد کو رہا کرنا تھا۔ اگرچہ پولیس نے حراست سے چھڑائے گئے 19ملزمان کے ساتھ ساتھ کچھ حملہ آوروں کو بھی گرفتار کر لیا ہے اور ان کے قبضہ سے اسلحہ اور گاڑیاں بھی برآمد کر لی ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع بالخصوص خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سنگجانی ٹول پلازہ کے قریب جیل وینوں پر حملے کو وفاقی حکومت اور پولیس کی طرف سے ترتیب دیا گیا ایک سٹیج ڈرامہ قرار د ے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سب کا مقصد پارٹی کو بدنام کرناہے۔
پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے بھی پی ٹی آئی کے زیر حراست افراد کو اس طرح ہینڈل کرنے پر تنقید کی ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ ایس ایچ او شبیر تنولی نے قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیوں کو روکنے کا حکم دیا اور خود ہی ان کی توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے ہمارے لوگوں کو بھاگنے کو کہا، لیکن وہ ڈٹے رہے۔ پی ٹی آئی قیادت کے دعوں کے برعکس پولیس کا کہنا ہے کہ 82 قیدیوں کو لے جانے والی جیل وینز جب سنگجانی ٹول پلازہ کے قریب پہنچیں تو ان پرچار گاڑیوں میں سوار ہتھیاروں، لاٹھیوں اور پتھروں سے لیس حملہ آوروں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں چار پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ حملہ آوروں میں سے تین کو جائے وقوعہ پر گرفتار کر لیا گیا جبکہ باقی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
فاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے سنگجانی ٹول پلازہ کے قریب جیل وین پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ یقینی طور پر ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کا مقصد قیدیوں کے فرار میں مدد کرنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے لیاقت کے بیٹے سمیت کئی حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فرار ہونے والے ملزمان کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے، واقعے کے دوران کچھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ گرفتار چار حملہ آوروں کے قبضہ سے دو گاڑیاں اور آتشیں اسلحہ قبضے میں لیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں پر حملوں اور انہیں نقصان پہنچانے سے لے کر 9 مئی کے فسادات تک پی ٹی آئی کی تاریخ ملک دشمن سرگرمیوں سے بھری پڑی ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ٹول پلازہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے باقی حملہ آوروں کو بھی جلد پکڑ لیا جائے گا۔انہوں نے پی ٹی آئی قیادت کے ردعمل پر تنقید کرتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دیا اور ان کے دعووں کوفلم کا اسکرپٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔ وزیر اطلاعات نے زور دے کر کہا کہ ریاست ایسی کارروائیوں کو برداشت نہیں کرے گی اور یقینا اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اپنے دعووں کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کیس کو لے کر حکومت ایسی مثال قائم کرے گی کہ مستقبل میں کوئی بھی جیل وین کو روکنے اور قیدیوں کو فرار ہونے میں مدد کرنے کی جرات نہ کرسکے۔ یو ایس کیپٹل ہل اور لندن فسادات جیسے واقعات میں سنائی گئی سزاؤں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریاست کا اختیار برقرار رکھا جائے گا، اور کسی بھی سطح پر کوئی نرمی نہیں دکھائی جائے گی۔
پی ٹی آئی کا اب تک کا ٹریک ریکارڈ تویہی رہا ہے کہ وہ اس قسم کی سنگین کاروائیاں ڈالنے کے بعد اس میں ملوث ہونے سے یکسر مکر جاتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ روز کے واقعہ میں بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں لیکن سانحہ نو مئی میں ان کی قیادت اور کارکنوں کا ملوث ہونا کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر تھا ، اس سب کے باوجود بانی چیرمین صاصب نے بہت مزے سے فرما دیا تھا کہ ان کے کارکنان ان واقعات میں ملوث نہیں ہیں۔معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ اگر اب بھی حکومت اور اداروں نے اس قسم کے کرداروں کی سرکوبی کا تگڑے انداز میں کوئی انتظام نہ کیا تو پھر شائدمعاملات کو قابو میں لانے کے لیے بہت دیر ہو جائے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.