نئے نظام میں بیعت

87

تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو مختلف ادوار میں کچھ گروہ ایسے نظر آتے ہیں جو قیادت اور حکومت کا حق نہ رکھتے تھے، یہ گروہ تلواریں سونت کر میدان میں اترتے رہے، نوک نیزہ پر عوام الناس کو اپنی بیعت پر مجبور کرتے رہے، کچھ لوگوں نے ہنسی خوشی، کچھ نے حرص کے اسیر ہو کر اور کچھ نے جان جانے کے خوف سے ان کے ہاتھ پر بیعت کی کچھ مردان حق ایسے بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے غاصبوں کی بیعت سے انکار کر دیا۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہم جیسا تم جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔ یہ شخصیات یہ ہستیاں زندہ جاوید ہو گئیں، حق ہمیشہ زندہ رہتا ہے باطل مٹ کے رہتا ہے۔ لاکھوں مربع میل پر پھیلی یزید کی حکومت فقط تین برس میں زمین بوس ہو گئی اس کی لاکھوں نفوس پر مشتمل فوج اس کے کسی کام نہ آ سکی، ہلاکو خان اور چنگیز خان آئے، آندھی کی طرح آئے اور طوفان کی طرح چھا گئے۔ رومیوں سا طاقتور کوئی ہوگا، وہ بھی پیوند خاک ہوئے قیصر و کسریٰ انجام کو پہنچے۔ سکندر اعظم نصف دنیا فتح کرنے کے بعد آج صرف تاریخ کے اوراق میں ملتا ہے، روئے زمین پر نہیں، زمین سب کو کھا جاتی ہے بس نام رہ جاتا ہے۔ لاتعداد بدنصیب ایسے ہیں جن کا نام بھی زندہ نہیں رہتا، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی نیک نامی میسر نہیں آتی۔ وہ لوگ کس قدر سیاہ نصیب ہوں گے جن کی زندگی میں ان کے منظر اور منصب سے ہٹنے پر لوگ سکھ کا سانس لیں، شکرانے ادا کریں، یوم نجات منائیں۔ حکومتیں، مصاحبوں کی تعداد اور سلطنت کی وسعت کی بنیاد پر قائم نہیں رہتیں، انصاف کی بنیاد پر قائم رہ سکتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی دیکھئے، دودھ سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک خالص نہیں رہیں اور ہم ہیں کہ خالص انصاف ڈھونڈ رہے ہیں۔ ناخالص نظام ہمیں اس انداز سے ہانک رہا ہے جو دنیا کے ایک سو پچانوے ممالک میں کہیں رائج نہیں مگر ہمیں دعویٰ ہے ہم تاقیامت قائم رہیں گے، حالانکہ یہ دعویٰ اس روز معنی کھو بیٹھا تھا جس روز ہم دولخت ہوئے تھے، جاری مہینے کو اس اعتبار سے یاد رکھا جائے گا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر بیعت طلب کی گئی تھی، اسے حاصل کرنے کے کئی طریقے تھے۔ ضروری نہ تھا کہ نوک سناں پر لی جائے، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جناب اختر مینگل نے ایک انتہائی قریبی عزیز بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور تخریب کاروں کے پشت پناہ ہیں جبکہ جناب اختر مینگل پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے آئین کے تحت انتخابات میں حصہ لیا اور آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھایا، ایوان میں پہنچے، ان کے ممبران پارلیمینٹ کو خریدا گیا یا ہراساں کیا گیا۔ خدا بہتر جانتا ہے ہم نے پیغام یہ دیا کہ جناب مینگل صاحب ہمیں آپ کی ضرورت نہیں آپ بطور پارٹی سربراہ ہمیں ووٹ نہ بھی دینا چاہیں تو ہم آپ کے ووٹ اینٹھ سکتے ہیں۔ اس نوسربازی کو ضمیر کے مطابق ووٹ دینا کہا جا رہا ہے۔ اختر مینگل کی مہربانی وہ آج بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، ہم نے تو انہیں ان کے اس بھائی کی طرف دھکیل دیا ہے جو آج پاکستان کے ساتھ نہیں اس کے خلاف کھڑا ہے۔ فیصلہ خود کر لیجئے بلوچستان کو کیا پیغام پہنچا ہے۔ سپریم کورٹ کے آٹھ معزز جج صاحبان کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو آج تک سمجھ نہیں آیا لہٰذا صوبہ خیبر پختونخواہ میں سینیٹ کے انتخابات نہیں ہو سکے، ہائوس مکمل نہیں مگر بیعت طلب کر لی گئی۔ پاکستان کا ایک پورا صوبہ جمہوری نظام میں شامل نہیں کیا گیا۔ خیبر پختونخواہ کے باسی اسلام آباد کی طرف دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے انہیں پیغام دیا ادھر نہیں منظور پشتین کی طرف دیکھو۔ چیف خاکی وردی والا ہو یا کالے جبے والا، وہ پورے ملک اور پورے ملک میں بسنے والوں کا ہوتا ہے۔ پہلے اپنا خاکی چیف ڈھونڈنے والے اب اپنا سیاہ جبے والا چیف چاہتے ہیں جس کی ضرورت نہ تھی۔
کیا یہ ممکن ہے کہ صدر پاکستان کے ساتھ تین سابق صدور بٹھا دیئے جائیں جو یہ فیصلہ کریں کہ موجودہ صدر کس فائل پر دستخط کرے گا اور کس پر نہیں۔ کیا نوٹ لکھے گا اور کیا نہیں۔ یقینا نہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ تین سابق وزرائے اعظم بٹھا دیئے جائیں کہ کابینہ کن افراد پر مشتمل ہوگی، ان کے محکمے کیا ہوں گے، یہ فیصلہ وہ کریں یقینا نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آرمی چیف کے ساتھ تین سابق آرمی چیف بٹھا دیئے جائیں جو فیصلہ کریں کہ کون کس کور کو کمانڈ کرے گا اور کون نہیں، یقینا نہیں، ادارے کا سربراہ بااختیار ہوتا ہے وہ اپنی صوابدید کے مطابق اپنی ٹیم کا انتخاب کرتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان سے بہترین کام لیتا ہے۔ نظام اس طرح کامیابی سے چلتا ہے، پھر کیوں یہ خواہش کی جا رہی ہے کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان کے اختیارات سلب کر لئے جائیں کوئی اور یہ فیصلہ کرے کہ مختلف عدالتی بنچ میں کون کون بیٹھے گا، کوئی اور یہ فیصلہ کرے کہ سوئوموٹو لینا ہے یا نہیں اور کوئی اور فیصلہ کرے کہ کونسا مقدمہ کون جج صاحب سنیں گے اور کون نہیں سنیں گے، دنیا بھر میں چھوٹے بڑے ایک سو پچانوے ملک ہیں۔ یہ نظام کہیں نہیں، کوئی ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پذیر ملک، یہ مذاق کہیں نہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس نئے طریقہ کار کے مطابق اب فراہمی انصاف کی رفتار تیز ہو جائیگی۔ اس سے بہتر یہ ہوگا کہ عدالتی نظام میں یہ اصلاح یہ ترمیم کی جائے کہ نصف درجن عدالتوں کی بجائے دو عدالتیں ہوں گی۔ ایک ٹرائل کورٹ دوسری اپیلٹ کورٹ، دونوں عدالتیں ایک مقرر کردہ ٹائم فریم میں فیصلے کرنے کی پابند ہوں، جھوٹے مقدمات دائر کرنے والوں کی سزا کا تعین بھی ضروری ہے۔ ثاقب نثار چیف جسٹس تھے انہوں نے آخری ایام میں ایک مقدمے کا آخری فیصلہ سنایا جو ایک سو برس سے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ چار نسلیں اس مقدمے نے اجاڑ دیں پھر جا کر مدعیہ کے حق میں فیصلہ ہوا کہ یہ وراثتی زمین اس کی ہی ہے۔ یہ مقدمہ پہلے سول کورٹ میں آیا پھر سیشن کورٹ میں پہنچا، اس کے بعد ہائیکورٹ آیا پھر نظرثانی اپیل اس کے بعد سپریم کورٹ پھر وہاں نظرثانی اپیل۔ اندازہ فرمایئے مقدمے کا سفر کس قدر طویل تھا، کوئی بھی شخص یا پیارہ دنیا کے سفر پر نکلے تو سو برس میں دنیا کے گرد کئی چکر لگا سکتا ہے ہمارے یہاں اپنا حق حاصل کرنے میں اسے سو برس لگ جاتے ہیں، درجنوں نہیں سینکڑوں مثالیں موجود ہیں، عمر بیت گئی حق مل سکا نہ انصاف مل سکا۔ صرف اس لئے کہ مدعی نے صرف وکیل پر تکیہ کیا تھا اس سے اوپر نہ دیکھا۔ المیہ یہ بھی ہے، عدالتیں سیاستدانوں کا احتساب نہ کر سکیں، اب سیاستدان عدلیہ کا احتساب کریں گے، سزا و جزا کا فیصلہ وہ کریں گے یہاں بھی پہلے بیعت طلب ہو گی، نیا نظام یہی ہے۔

تبصرے بند ہیں.