26 ویں آئینی ترمیم اور پاکستان کامستقبل

41

ہر اتحاد کی پہلی شرط یہی ہوتی ہے کہ اُس نے ٹوٹنا ہوتا ہے سو اتحاد کے دوران ہمیں اپنے اتحادیوں سے ہمیشہ ایسا سلوک رکھنا چاہیے کہ دوبارہ کسی نئے اتحاد کیلئے آنکھ کی شرم اور رویوں میں حیا باقی رہے۔ ہمارے رویوں میں اختلاف ہونا چاہیے مخالفت نہیں ۔ سیاست میں دوبارہ مل بیٹھنے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہنی چاہیے کہ جمہوریت کا یہی حسن ہے جو کسی جمہوری معاشرے کو آگے لے کر جاتا ہے ۔نئے سفر کے رستے ٗ نئی منزلوں کا تعین کرتے ہیں ۔ اچھا سیاستدان ہمیشہ دروازے اورکھڑکیاں بناتا ہے تاکہ لوگ بھی آتے جاتے رہیں اور ہوا بھی تاکہ کبھی حبس کا احساس نہ ہو۔ دیواریں چننے والے سیاستدانوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ لوگ یا تو دیواریں ڈھا دیتے ہیں یا پھر پھلانگ جاتے ہیں ۔ تحریک انصاف نے 26 ویں آئینی ترمیم رکوانے کیلئے سو پیاز بھی کھائے اورسو۔۔۔۔ بھی لیکن 26ویں ترمیم اب آئین کا حصہ بن کر اپنا کردار ادا کررہی ہے ۔وہی مولانا فضل الرحمان جن کے خلاف عمران نیازی نے خود جلسوں میں ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگوائے ٗ جنہیں وہ مولانا تسلیم کرنے کیلئے بھی تیار نہیں تھالیکن جب اُسے اپنے سیاسی مفادات کیلئے مولانا کی ضرورت آن پڑی تو ساری تحریک انصا ف مولانا کے در پر حالت ِ رکوع میں تھی ۔ مولانا فضل الرحمان ڈیزل تھا ٗ پھر دیکھتے دیکھتے ’’مرشد ‘‘ کی اجازت سے ’’ولی اللہ ‘‘ کے مقام پر فائز ہو گئے اوراب چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد مولانا پھر تحریک انصاف کے منافق قرار پا چکے ہیں ۔جس کا اظہار پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پیجیز پرکھلے عام ہو رہا ہے ۔ میں نے زندگی میں اُس سے زیادہ بیوقوف شخص نہیں دیکھا جو پہلے کسی کو اپنا دشمن بنائے اور پھر اُس سے رحم کی توقع بھی رکھے۔بلاشبہ ہر شے نے اپنے اصل کی طرف ہی لوٹنا ہوتا ہے ۔ تحریک انصاف بھی مولانا کے حوالے سے اپنے پرانے ایجنڈ ے پر لوٹ چکی ہے ۔ چھبیسویں ترمیم نے عمران نیازی کی تمام خواہشات کو دل ہی دل میں جوان کیا اور وہیں موت کی گھاٹ اتار دیا۔ عمران نیازی یقینا کسی پر اعتماد کرنے والا شخص نہیں سو عنقریب تحریک انصاف میں موجود بڑے گھروں خانوادوں کے چھوٹے لیڈر عمران نیازی کو گڈ بائے کہتے نظر آئیں گے کیونکہ اطلاع ہے کہ چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد اڈیالہ جانے والے وفد کو مبینہ طور پر انگریز ی زبان میں عمران نیازی سے گالیاں سننا پڑی ہیں ۔ عمران نیازی ایک بد لحاظ شخص ہے اور اس کیلئے مجھے کسی دوسرے شخص کی شہادت ہرگز درکار نہیں کیونکہ 25 سالہ رفاقت میں یہ سانحے تو میں نے بارہا اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اتنے دنوں سے جاری اس پارلیمانی ہیجان میں مجھے ایک وسوسہ بھی نہیں اٹھا کہ چھبیسویں ترمیم منظور نہیں ہو گی ۔ اتحادی حکومت چاہتی تو یہ تعداد دو تہائی سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی تھی لیکن اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ ووٹنگ کے بعد بقول پی ٹی آئی کے وہ تمام ضمیر بک چکے تھے جو سنجرانی کی ووٹنگ کے وقت جاگے تھے ۔
عمران نیازی اقساط میں مسمار ہو رہا ہے ۔ عنقریب اُس کے بیانات میں غصے کا عناصر ضرورت سے زیادہ بڑھ جائے گا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ جیل سے باہر کروڑو ں پاکستانی اُسے رہا کرانے کیلئے تیار کھڑے ہیں لیکن اُس کی نامزد کردہ نالائق قیادت اُس ’’ عظیم ہجوم ‘‘ کو ریاست کے خلاف استعمال کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے ۔ علی امین گنڈا پور نے ترمیم کو ڈکیتی قراردے کر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے ۔ سیانے کہتے ہیں جومکہ لڑائی کے بعد یاد آئے وہ اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ اب جب کہ گھوڑے ہی چوری ہو چکے ہیں تو اصطبل کا دروازہ بند کرنے کا کیا فائدہ ہوگا ؟یحیی خان آفریدی پاکستان کے نئے چیف جسٹس ہوں گے اور منصو ر علی شاہ کی تعیناتی نئی قانون سازی کی نذر ہو چکی جس سے تحریک انصاف کے ورکرز کا مورال یقینا نیچے آئے گا کیونکہ تحریک انصاف کی سیکنڈ لیڈر شپ اب تک انہیں یہی تسلی دے رہی تھی کہ ’’ اپنا جج‘‘ آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن اب ایسا نہیں ہونے جا رہا ۔ عمران نیازی بھی عجیب نصیب لے کرآیا ہے ۔ اللہ نے اُسے شہرت دی ٗ دولت دی ٗ عزت دی لیکن اُس کا ساڑھے تین سال کا اقتدار اور اقتدار کے بعد کا طرز سیاست سب کچھ نگل گیا ۔ اُس نے جس کو دشمن بنایا اُس کا اقبال بلند ہو گیا اورجسے دوست بنایا یا دوستی کا جھانسہ دیا وہ سب زیر عتاب آ گئے ۔ موجودہ آرمی چیف کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی عمران نیازی نے غیر اخلاقی طو ر پر ہٹایا اور آج وہ پاکستان کا آرمی چیف ہے ۔ جس شخص کو وہ آرمی چیف بنانا چاہتا تھا وہ اپنے ہی ادارے کی زیرحراست ہے۔ منصور علی شاہ کو وہ چیف جسٹس دیکھنا چاہتا تھا لیکن وہ اپنی زندگی کی اہم ترین پوسٹ سے محروم ہو گیا ۔ چیف الیکشن کمیشن اُسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا لیکن وہ آج بھی اپنے عہدہ پر کام کررہا ہے ۔ عبد العلیم خان جسے اُس نے بے گناہ ہتھکڑیاں لگوا کرسو سے زائد دن جیل میں رکھا ۔ اُس کا بزنس تباہ کرنے کی ہر ناکام کوشش کی ٗ اُس کے بچوں کو ایف آئی اے سے نوٹس کرائے وہ آج وفاق میں تین وزارتیں لیے بیٹھا ہے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں دنیا کے اہم ترین لوگوں سے مل کر پاکستان کو آگے بڑھانے کی پلان کر رہا ہے۔عبد العلیم خان ایک بہتر پاکستان کیلئے ہرحد تک جانے کیلئے تیار ہے لیکن عمران نیازی آج خود جیل میں ہے اورہر وہ سہولت مانگ رہا ہے جو وہ اپنے سیاسی مخالفین کو دینا قانون کی خلاف ورزی سمجھتا تھا ۔ اُس کا لشکر یا تو تتر بتر ہو چکا ہے یا زیر زمین ریاستی مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران نیازی پر بوجھ بڑھاتے جا رہے ہیں ۔74 سالہ عمران نیازی 34 سالہ بلاول بھٹو سے سیاسی مات کھا گیا وہ مولانا فضل رحما ن جس کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا تھا بلاول کی سیاست کے سامنے لیٹ گیا یہی سیاست کا حسن ہے ۔ 23جنوری 1965 ء کو کوہاٹ فرنٹیئر ریجن میں پیدا ہونے والے جسٹس آفریدی 15 مارچ 2010 کو ہائی کورٹ میں بطور ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور بعد ازاں 15 مارچ 2012 کو ہائی کورٹ کے مستقل جج کے طور پر تقرر کیا گیا۔1991 میں ہائی کورٹ اور 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر ان کا اندراج ہوا۔بنچ میں اپنی ترقی سے پہلے، وہ ایک مشہور وکیل تھے جو ایک مشہور قانونی فرم آفریدی، شاہ اینڈ من اللہ چلا رہے تھے، جو 1997 میں قائم ہوئی تھی۔اسی فرم کے دو دیگر ساتھیوں میں جسٹس شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔پاکستان کی عدالتی تاریخ کا نیاسفر شروع ہورہا ہے دعا کریں کہ یہ پاکستان کی عوام کیلئے بہترین ثابت ہو۔لیکن ہر اتحاد کی پہلی شرط یہی ہوتی ہے کہ اُس نے ٹوٹنا ہوتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں.