ہمارے مولانا

83

مولانا فضل الرحمن کی سیاسی مہارت، بصیرت، معاملہ فہمی اور کامیاب حکمتِ عملی پر میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرتا رہتا ہوں، جس کے وہ کبھی مستحق ہوتے ہیں اورکبھی نہیں۔ مولانا کے والدِ محترم جناب مولانا مفتی محمود ایک قد آور شخصیت تھے اور دینی اور قومی حلقوں میں بڑا نام رکھتے تھے اور مذہبی سیاست دانوں میں ان کی سیاسی طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے چار بیٹے ہیں، زیادہ نمایاں مولانا فضل الرحمان ہیں۔ 1970ء میں جب یحییٰ خان کی سرپرستی میں سارے امریکہ نواز مولوی اکٹھے ہو کر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف صف آراء ہوئے تو مفتی محمود اپنی جماعت کے ساتھ ان کی مدد کے لئے آئے اور بھٹو کو کفر کے فتوے دے کر سیاست سے باہر کرنے والوں کو پسپا کر دیا لیکن بعد میں جب انتخابات کا مرحلہ آیا تو ذوالفقار بھٹو نے انتخابی معاہدے کے لئے بڑی کڑی شرائط رکھیں جو انہیں قابلِ قبول نہ تھیں، چنانچہ انہیں علیحدہ ہو کر انتخاب لڑنا پڑا۔
موت سے کچھ دن قبل انہوں نے اپنے بیٹے مولانا فضل الرحمٰن کو پاس بٹھا کر تلخ تجربات کی ایک طویل فہرست سنائی جس میں کئی چہروں کو بے نقاب کیا اور اپنے تجربات کی بنیاد پر سیاست کے میدان کی فریب کاریوں کا سامان کرنے کے واقعات ان سے شیئر کئے۔ انہیں بتایا کہ سیاست اقتدار کا کھیل ہوتا ہے جس کے اپنے اصول ہیں، اگر تم اصول پسندی پر کاربند رہ کر سیاست کرنا چاہتے ہو تو بہتر ہے کہ اپنے آپ کو دین کی خدمت تک محدود رکھو اور اگر سیاست کرنی ہے تو پھر اس کے انداز بھی اختیار کرنا ہوں گے۔ اس کھیل میں کوئی کسی کا دوست اور ہمدرد نہیں ہوتا۔ صرف مفادات اور ضرورتیں ہی ساتھی بناتی ہیں اور وہی ساتھیوں کو مخالفین میں بدل دیتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے والد کی پوری زندگی کے سیاسی تجربات کا اثاثہ لے کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ مولانا مفتی محمود کے تجربے اور بصیرت کا جو ورثہ انہیں ملا وہ اسی کو لے کر چل رہے ہیں اور ہر موقع پر بڑے کامیاب ثابت ہوتے ہیں، اس کا فائدہ ان کی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے۔
حالیہ 26 ویں آئینی ترمیم کے دوران بھی ہم نے دیکھا کہ مولانا فضل رحمٰن کا گھر مرکز بنا رہا بلکہ یہ کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا کہ وہاں آنیاں جانیاں لگی رہیں اور مولانا کی ذات گزشتہ کئی دنوں تک ہر ایک کی آنکھوں کا تارہ بنی رہی۔ خواہ حکومتی ارکان تھے یا پھر اپوزیشن قائدین آستانہ مولانیا پر صبح شام حاضری دیتے رہے لیکن کیا انہوں نے وہی جس کے بارے میں انہوں پہلے سے ٹھان رکھا تھا۔ جس کا برملا اظہار انہوں نے ترمیم سے قبل اپنے قومی اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کے مطابق ہم نے کالے سانپ کے دانت توڑ کر زہر نکال دیا ہے۔ یہ زہر وہی تھا جس کو حکومت نے پچھلی بار اسمبلی میں پیش کرنے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ یہ زہر تو حکومت نے ڈالا ہی نکالنے کے لئے تھا کیونکہ وہ جانتی ہے کہ کل اس نے اقتدار سے باہر ہونا ہے، پھر اسے بھی اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جب شروع میں اس ترمیم کو لانے کی کوشش کی گئی تو مولانا فضل الرحمٰن نے اس کی بڑے زور شور سے مخالفت کی۔ شائد یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن ان کو سمجھ نہ پائی اور اس کے اربابِ اختیار مولانا کے پیچھے پھرنے لگ پڑے۔ مولانا کو داد دینا پڑے گی انہوں نے اس ساری کارروائی کے دوران اپنی تعریفوں کے انبار لگوا لئے حتیٰ کہ وہ پی ٹی آئی جو ان کی کڑی ناقد تھی وہ بھی بل پیش ہونے سے قبل تک ان پر داد کے ڈونگرے برساتی رہی لیکن مولانا کی رہنمائی تو ان کے والد کی ا س بات پر تھی کہ سنو سب کی کرو اپنے مفاد کی پھر سب نے دیکھ لیا کہ کیا ہوا ۔عوام کی عمومی رائے یہی تھی کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ مولانا اس ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دیں، یقین مانیں میری بھی یہی رائے تھی، پھر سب نے دیکھا کہ وہی ہوا مولانا نے اتنی سنسنی کے بعد ووٹ بالآخر ترمیم کے حق میں دے دیا ۔ سب سے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی سمجھ رہا تھا کہ مولانا ہر صورت ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے پی ٹی آئی یہ بات سمجھ ہی نہیں سکی۔ اسے مولانا کے پیچھے چلنے کے بجائے دو ٹوک انداز میں بات کرنا چاہئے تھی کہ 26 ویں ترمیم عدلیہ کو سرنگوں کرنے کی کوشش ہے اور جیسے بھی ہم نے اس کی مخالفت کرنا ہے۔ پی ٹی آئی نے مولانا کے ارد گرد چکر لگا کراپنا امیج خراب کیا۔ ا س سارے معرکے میں پی ٹی آئی کی قیادت حالات کو سمجھ ہی نہیں سکی۔
انٹرنیشنل جیورسٹس کمیشن نے آئینی ترامیم کو عدلیہ کی آزادی کے لئے دھچکا قرار دیا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ آزادی کے وقت سے ہی ایگزیکٹو کے دباؤ سے نکلنے کی خواہاں رہی ہے، جو آزادی کے فوراً بعد اس پر پڑنا شروع ہو گیا تھا اور وہ معمول کے حالات میں آئین و قانون کے ارتقائی عمل میں وہ حصہ نہیں لے سکی جو کہ عدلیہ کا حق ہوتا ہے۔ ریاستی اداروں کے مابین توازن اختیارات بڑا اہم مسئلہ ہوتا ہے جو ہمیشہ حکومتوں اور عدالتوں کی قانونی اور آئینی کشمکش میں نئی نئی شکلیں اختیار کرتا رہتا ہے، یہی کشمکش ہے جس میں عدل و انصاف کا نظام ارتقائی مراحل طے کرتا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں یہ عمل معمول کے مطابق نہ ہو سکا۔ جس کا نتیجہ عدم توازن کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ عدم توازن ہمیں کہاں لے جائے گا؟ یہ سوال آج پوری پاکستانی قوم کے لئے پریشان کن ہے۔

تبصرے بند ہیں.