ادب کا نوبل انعام اور ہان کانگ

120

ایک ادبی بیٹھک میں سلیم شہزاد کے ناولوں "گھان” اور "پلوتا” کی تکنیک پر بات ہو رہی تھی۔ میرے خیال میں ان ناولوں میں کئی جدید تکنیکی تجربات کیے گئے ہیں جنھوں نے سرائیکی کے ساتھ ساتھ اردو ناول کے لیے بھی کئی تخلیقی امکانات پیدا کیے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری تنقید کو بھی معاصر ادب کے رموز کے ساتھ ترقی کرنا ہو گی ورنہ صورت حال یہ ہے کہ اکثر ناقدین فن پاروں کے فکری تجزیے بلکہ تشریحات کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور بعض تو ایسی محیر العقول تشریح کرتے ہیں کہ تخلیق کار کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ ان تشریحات کے ذریعے ادیب کو اپنی ان خوبیوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو اس میں کبھی نہیں پائی جاتی تھیں۔ پاکستان میں بہت سی ادبی تحریکوں کے خاتمے اور حلقہ اربابِ ذوق کی دھڑے بندیوں اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی تقسیم در تقسیم کے باوجود معیاری ادب تخلیق تو کیا جا رہا ہے لیکن ایسے ادبا اور شعرا کی تعداد بہت کم ہے جو تخلیقی امکانات سے بھرپور ادب کی تشکیل جدید کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض بین الاقوامی معیار کا حامل جدید ادب تخلیق کر رہے ہیں جو عالمی سطح پر نوبل انعام یافتہ فن پاروں کے برابر رکھا جا سکتا ہے۔
ہمارے زمانے میں ادب کا نوبل انعام مختلف مصنفین کو دیا جاتا ہے اور ہر سال اس انعام کا فیصلہ فن پاروں کے محاسن و معائب ان کے فنی اور فکری کمالات کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ نوبل انعام برائے ادب کا مقصد ان مصنفین کی تخلیقات کو تسلیم کرنا ہے جو انسانی تجربات کو بہترین تخلیقی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ 2023 میں ناروے کے جان فوسیکو ان کے جدید اور اختراعی ڈراموں اور شاندار نثر کے لیے ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انھوں نے ناقابلِ بیان اور غیر معمولی کیفیات و مسائل کو بھی بیان کیا ہے جو عام مصنف کی دسترس میں نہیں آتے۔
ادب کا نوبل انعام 2024 میں جنوبی کوریا کی 53 سالہ ناول نگار ہان کانگ کو ان کی تاریخی سانحات اور صدمات کی تخلیقی ترجمانی کرنے اور انسانی زندگی کی نزاکت کو بے نقاب کرنے والی شاعرانہ نثر کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔ ان کے ادبی کاموں میں "دی ویجیٹیرین” ، "دی وائٹ بک” ، "ہیومن ایکٹس” اور "گریک لیسن” شامل ہیں۔
سویڈش اکیڈمی کے سکریٹری میٹس مالم نے نوبل انعام کے اعلان کے بعد بڑے دلچسپ انداز میں ہان کو مبارک باد دی اور دسمبر میں انھیں تقریب کے بارے میں بتایا۔ جب ان کی ہان کانگ سے بات ہوئی تو وہ ایک عام دن گزار رہی تھیں ایسا لگتا تھا انھوں نے ابھی اپنے بیٹے کے ساتھ رات کا کھانا کھایا ہے۔ ہان اس غیر معمولی خبر کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انھوں نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے سیکرٹری سے کہا کہ یہ میرے لیے باعث مسرت ہے۔ ہان کورین ادب کو پڑھتے ہوئے پروان چڑھیں تھیں۔
ہان کی زندگی کے ہر مسرت موقع پر کوریا کے صدر نے ان کو صرف مبارکباد نہیں دی بلکہ نہایت خوبصورت انداز میں ان کے کام کی عظمت کا اعتراف بھی کیا۔ صدر نے کہا "آپ نے ہماری جدید تاریخ کے دردناک زخموں کو عظیم ادب میں تبدیل کیا ہے۔ کوریائی ادب کی قدر کو بلند کرنے پر میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔”
ہان یہ انعام جیتنے والی پہلی جنوبی کوریائی مصنف اور 18ویں خاتون ہیں۔ انھوں نے کمزور اور ناتواں خواتین کی زندگیوں کے بارے میں اپنی تخلیقات میں بڑی ہمدردی اور گہرے احساسات کا اظہار کیا ہے۔ استعاراتی کمالات سے بھرپور نثر سے ان کے اظہاریے کو تقویت ملی ہے۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جسم اور روح، زندہ اور مردہ کے درمیان کنکشن کے بارے میں منفرد طرز کی آگاہی رکھتی ہیں اور شاعرانہ انداز کی بدولت عصری نثر میں اختراعی انداز و اسلوب کی مالک بن گئی ہیں۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ Love of Yeos پہلی بار 1995 میں شایع ہوا تھا۔
"دی ویجیٹیرین” ان کا پہلا ناول تھا جس کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ اس ترجمے پر تنقید کی گئی تھی، لیکن اس نے بین الاقوامی بکر پرائز جیتا اور ہان کو دنیا بھر میں پذیرائی اسی ناول کے مدد سے مل گئی تھی۔ہان کا 2014 کا ناول ” ہیومن ایکٹس” مئی 1980 کے گوانگجو قتل عام کے بارے میں ہے۔ جب ایک بغاوت کو بے دردی سے دبا دیا گیا تھا۔ ناول "گوانگجو قتل عام کو یاد کرتا ہے اور اس تاریخی واقعے سے جنم لینے والے مصائب کی عکاسی کرتا ہے۔
ہان کا تازہ ترین ناول، وی ڈو ناٹ پارٹ، (we do not part) 2025 میں انگریزی میں شائع ہوگا جس کا ترجمہ E Yaewon اور Paige Aniyah Morris نے کیا ہے۔ کہانی ایک مصنف کے گرد گھومتی ہے جس نے اپنے دوست کے خاندان پر 1948-49کی جیجو بغاوت کے اثرات کو دریافت کیا۔ اس ناول کے فرانسیسی ترجمے نے 2023 پہلے ہی ایوارڈ حاصل کیا ہے۔
ہان نے ایک بڑی ناول نگار اور ادیب ہونے کی حیثیت سے انسانی نفسیات کے نہاں خانوں میں جھانکا اور اس کرب کو دریافت کیا جو دنیا کی مادی تاریخ سے کہیں چھوٹ گیا تھا۔ انھوں نے جس شفافیت اور بے باکی سے انسانی عظمت کے عالمگیر تصور کو پیش کیا وہ ان کے بڑے دل و دماغ پر دال ہے۔ اس حوالے سے وہ کریٹک بھی داد کے مستحق ہیں جنھوں نے ہان کی تخلیقات کو اس وقت سراہا جب انھیں خاصی تنقیص کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اگر اردو زبان میں بھی ہان کے ناولوں کے تراجم پیش کیے جائیں تو ان کی بدولت ہمارا قاری اور نقاد نئی طرز احساس سے واقف ہو گا اور تخلیق کاروں کو بھی نئے فنی حربوں سے واقفیت ملے گی۔ ہان کا نوبل انعام حاصل کرنا ہماری خواتین نثر نگاروں کے لیے بھی حوصلہ افزا بات ہے اور ان کے ادبی سفر میں مسلسل آگے بڑھتے رہنے کا جذبہ بھی ہمیں ایک طرح کی تحریک ضرور دے گا۔

تبصرے بند ہیں.