اوورسیزکے لئے سپیڈ کورٹس

344

دو ہزار اٹھارہ میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تومیری اس وقت کے وزیر قانون فروغ نسیم صاحب سے ون آن ون ملاقات ہوئی۔ میں ان سے عرض کی کہ آپ ایک پروگریسو انسان ہیں۔ تحریک انصاف بھی تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئی ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت بھی حاصل ہے۔ آپ کو چاہیے کہ ان کے بنیادی مسئلے بھی حل کریں۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جو اپنی جوانیاں پردیس میں گزار کر یہاں اپنی خاندانوں اور ملک کے لئے کثیر زرمبادلہ بھیجتے ہیں جس ملک چلتا ہے۔ یہ رئیل سٹیٹ اور انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں انھیں صرف اور صرف دھوکا ملتا ہے۔ وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے عدالتوں میں دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ وکیلوں سے لے کر بیوروکریسی تک ان سے مال بٹورتے ہیں لیکن ان کو ان کا حق نہیں ملتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ عدالتی اصلاحات کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کے کیسز کے لئے الگ سپیڈ کورٹس قائم کریں۔ کیونکہ اوورسیز آپ سے صرف اور صرف انصاف مانگتے ہیں۔ آپ کو کیا تکلیف ہے آپ ان کو انصاف کیوں نہیں دیتے۔ فروغ نسیم میری بے باکی پر مسکرائے اور کہا کہ آپ کی تجاویز بہت درست ہیں۔ لیکن ہوا کچھ نہیں۔ میں مسلسل اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے لئے آواز اٹھا رہا ہوں۔ یہ بات پچھلے سال تین ستمبر دوہزار تئیس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے دوران میں نے چار پرپوزل پیش کئے تھے۔ میری پہلی تجویز اوووسریز پاکستانیوں کیلئے تیز تر انصاف، انوسیٹمنٹ کے لئے ون ونڈو آپریشن اور ائر پورٹس پر سپیشل کاؤنٹرز لگانے کا آئیڈیا دیا تاکہ انھیں عزت دی جائے اور ان کی وطن سے محبت اور بڑھے۔ آرمی چیف صاحب کو دوسری تجویزیہ پیش کی کہ بغیر کسی انوسٹمنٹ کے ملک میں گرین انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے حکومت کو صرف ایک فیصلہ کرنا ہے کہ ہماری موٹر ویز اور ریلوے کے ساتھ جو زرعی اراضی موجود ہے اسے بے روزگار اور محنت کش خاندانوں کو ننانوے برس لیز پر دے۔ قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر اگر فی کلو میٹر ایک خاندان کے حساب سے یہ زرعی زمین دیں تو ہزاروں خاندانوں کو روزگار ملے گا۔ ملک میں پھلوں اور اناج کی بے تحاشا پیداوار سے اشیا خورونوش سستی ملیں گی۔ اس کے ساتھ ملک سے پلوشن کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ اس پر میں پہلے تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں۔ میری تیسری اور اہم ترین تجویز گوادر کی ساحلی پٹی کے متعلق تھی۔ اس پرمیں نے بے تحاشا کالم لکھے ہیں۔ کراچی سے گوادر تک سولہ سوکلومیٹر سے زائد ساحلی پٹی کی دنیا کی سب سے خوبصورت ساحلوں میں سے ایک ہے۔ ایسا طویل اور شاندار ساحل دنیا میں صرف چند ممالک کے پاس ہے۔ جن میں سے پاکستان ایک ہے۔ اگر حکومت پاکستان کے ٹاپ ہنڈرڈ بزنس مینوں کو بلائے اورانھیں صرف پانچ پانچ کلومیٹر کے علاقے دے کر ٹورازم ڈیسٹینیشن بنانے کا ٹاسک دے۔ کراچی سے گوادر تک مسلسل ٹورسٹ ڈیٹینیشن کے ساتھ گودار کو بزنس حب بنا دیا جائے تو اس پورے خطے میں پاکستان جیسا کوئی ملک نہیں ہوگا۔ میں جب یہ تجاویز پیش کر رہاتھا تو آرمی چیف جناب عاصم منیر کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ موجود تھی۔ انھیں میرے تجاویز پسند آرہی تھیں۔ اسی ساحلی پٹی کی ایک خوبصوت تاریخ ہے۔ اٹھارہ سو انہتر میں پرطانوی کیپٹن میتھیو کے اعزاز میں لندن میں ایک تقریب جاری تھی۔ کیپٹن میتھو ملکہ کا خصوصی نمائندہ تھا جو تاج برطانیہ کے زیر تسلط ممالک میں سفر کرتا تھا اور ملکہ کو رپورٹ پیش کرتا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ نے میتھیو سے پوچھا کہ اب تک کے سفرمیں سب خوبصورت جگہ کونسی دیکھی۔ کیپٹن میتھو نے بلا توقف کہا کہ مکران کی ساحلی پٹی دنیا کاخوبصورت ترین ساحل ہے۔1876 میں جب ملکہ وکٹوریہ ہندوستان کے دورے پر آئیں تو خصوصی طور موجودہ گوادر کے ساحل پرگئیں۔ آج بھی ان کی یاد میں وہ ہٹ موجود تھا جو ان کے لئے خصوصی طور پر بنایا گیاتھا۔ میری چوتھی تجویز ایف بی آر اور مختلف ٹیکسز اکٹھا کرنے والے اداروں سے متعلق تھی۔ یہاں بھی میں نے اپنی فطری بے باکی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ جناب جب کوئی شخص ایک بزنس، فیکٹری یا کسی بھی کاروبار کے لئے اپلائی کرتا ہے۔ کیا اس وقت ہماری بیورو کریسی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ جب یہ کوئی لائسنس دیتے ہیں تو مکمل ڈکلئیریشن کیوں نہیں مانگتے۔ انوسٹمنٹ کے ذرائع کیوں نہیں پوچھتے۔ جب کوئی بندہ اپنا کاروبار جما لیتا ہے تو انھیں سارے ایس او پیز یاد آجاتے ہیں۔ میرے ذاتی تجربے اور مشاہدے کے مطابق اس وقت بھی ملک کی بھلائی و خیر خواہی پیش نظر نہیں ہوتی بلکہ اس جمے ہوئے کاروبار سے اپنا حصہ وصول کرنا مقصد ہوتا ہے۔ آرمی چیف نے میری تمام تجاویز کو غور سے سنا اور ساتھ بیٹھے پرسنل سٹاف افسر کوکچھ ہدایات جاری کیں۔ مجھے یقین ہے کہ آرمی چیف اور موجودہ حکومت نے اس کے لئے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ اسوقت سب سے بڑا چیلنج صرف سیاسی استحکام ہے۔ لیکن حکومت آہستہ آہستہ ان اہداف کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔ عدل کے حصول میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس وقت اس ترمیم پر وہ بندہ بھی اعتراض کر رہا ہے جسے قانون کے الف ب کا بھی نہیں پتا۔ تحریک انصاف کی خاموشی اس بات کی غماز ہے کہ مستقبل میں انھیں بھی اس کا فائدہ ہوگا۔پارلیمنٹ کی بالا دستی اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرے گی۔ میں ایک بار پھر اپنے اصل موضوع کے طرف آؤں گا کہ اوورسیز کے لئے فوری انصاف کا بندوبست کریں۔ان کا اعتماد بحال کریں۔ ان کے دلوں کو وطن کی مٹی سے دور نہ جانے دیں۔ آپ کے پاس دوتہائی اکثریت موجود ہے تو ان کے لئے سپیڈ کورٹس بنا کر انصاف فراہم کریں۔ اگر آپ صرف یہ ایک کام کر لیں تو آپ کو فارن انوسمنٹ اور آئی ایم ایف سے قرض مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

تبصرے بند ہیں.