پاکستان میں سودی نظام کی موجودگی اسلامی معاشی اصولوں کے منافی ہے۔ سود کا خاتمہ اسلامی معاشرے اور معیشت کے قیام کی راہ میں ایک اہم قدم ہے، جس کی ضرورت قرآن اور سنت میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان جو ایک تجربہ کار سیاسی رہنما اور اسلامی قوانین کے سخت حامی ہیں، اس مقصد کے لیے مستقل طور پر جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سودی نظام کے خاتمے کی کوشش میں مولانا کا کردار قابل تحسین ہے، جو اسلامی معاشی نظام کے قیام کی طرف ایک نمایاں قدم ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا تعلق ایک مذہبی اور سیاسی گھرانے سے ہے، جن کے والد مفتی محمود خود ایک ممتاز عالم دین اور سیاسی رہنما تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اسی مقصد کے ساتھ کیا کہ اسلامی قوانین کو پاکستانی آئین کا حصہ بنایا جائے اور معاشرتی و معاشی انصاف پر مبنی نظام قائم کیا جائے۔ ان کی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) پاکستان کی بڑی مذہبی جماعتوں میں شمار ہوتی ہے، جو اسلامی تعلیمات کے فروغ اور عملی نفاذ کے لیے کوشاں ہے۔
مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جے یو آئی (ف) نے ہمیشہ سودی نظام کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے نظریات کی جڑیں اسلامی معیشت میں ہیں، جہاں سودی نظام کو ظلم اور استحصال کی ایک صورت سمجھا جاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سودی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ یہ ترمیم ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے، جو مولانا اور ان کی جماعت کی طرف سے اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ سود کے خلاف یہ جدوجہد پارلیمنٹ میں کئی سال سے جاری تھی، لیکن مولانا فضل الرحمان کی قیادت اور عزم نے اس ترمیم کو عملی جامہ پہنایا۔
اس آئینی ترمیم کا مقصد ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنا تھا اور اسلامی بینکاری نظام کو فروغ دینا تھا۔ مولانا نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں کہا کہ سود کا خاتمہ نہ صرف مذہبی تقاضا ہے بلکہ یہ معاشرتی اور معاشی عدل کا تقاضا بھی ہے۔ انہوں نے اسلامی تاریخ کے حوالے دیئے کہ کس طرح اسلام نے سودی نظام کے بجائے انسان دوست اور عدل پر مبنی نظام فراہم کیا، جو امیر اور غریب دونوں کے لیے بہتر تھا۔
مولانا فضل الرحمان نے اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر دینی اداروں کے ساتھ مل کر سودی نظام کے خلاف واضح تحقیقات اور فتوے پیش کیے ہیں۔ 1991 میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اس فیصلے کے بڑے حامی رہے اور انہوں نے متعدد بار حکومتوں پر دباؤ ڈالا کہ اس فیصلے کو عملی طور پر نافذ کیا جائے۔
مولانا نے یہ بھی کہا کہ سودی نظام اسلامی معیشت کے اصولوں سے متصادم ہے، جس میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے اور غریب طبقہ ہمیشہ مالی مشکلات میں رہتا ہے۔ ان کے مطابق اسلامی بینکاری نظام دولت کی منصفانہ تقسیم اور معاشرتی انصاف کو فروغ دیتا ہے، جس سے پورے معاشرے کو فائدہ پہنچتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے نہ صرف سودی نظام کے خاتمے کی بات کی بلکہ انہوں نے اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے بھی عملی اقدامات کیے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسلامی بینکاری نظام کو مزید مستحکم کرے اور عوام کو اس کے فوائد سے آگاہ کرے۔ مولانا کی رائے میں، اسلامی بینکاری نظام سودی بینکاری کے مقابلے میں زیادہ شفاف اور عدل پر مبنی ہے، کیونکہ اس میں نفع و نقصان کی بنیاد پر کام ہوتا ہے، جو معاشرتی استحکام اور اقتصادی ترقی کا ضامن ہے۔
سودی نظام کے خاتمے کی آئینی جدوجہد میں مولانا فضل الرحمان کو سیاسی اور قانونی چیلنجز کا سامنا بھی رہا۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور مفاد پرست عناصر کی طرف سے اس ترمیم کی مخالفت کی گئی، لیکن مولانا فضل الرحمان نے اپنی بصیرت اور ثابت قدمی سے ان مشکلات کا سامنا کیا۔ انہوں نے سیاسی اتحادوں کو مضبوط بنایا اور مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو اس مسئلے پر یکجا کیا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری مولانا فضل الرحمان کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ انہوں نے نہ صرف اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے مضبوط موقف اختیار کیا بلکہ سیاسی میدان میں بھی اپنے مخالفین کو قائل کرنے میں کامیاب رہے۔ ان کی قیادت نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی روح پھونکی اور عوام کے دلوں میں اسلامی اصولوں کے لیے محبت کو مزید تقویت دی۔
مولانا فضل الرحمان کی کوششوں کی بدولت سودی نظام کے خاتمے کا یہ سفر ایک تاریخی سنگِ میل تک پہنچا ہے۔ اس ترمیم کے نفاذ کے بعد پاکستان میں اسلامی بینکاری کے فروغ کے امکانات مزید روشن ہو گئے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق، اسلامی بینکاری نظام نہ صرف ملکی معیشت کو سودی جال سے نجات دلائے گا بلکہ غربت کے خاتمے اور مالی استحکام کے لیے بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.