14 اکتوبر کو اپنے یو ٹیوب ویلاگ ASIF INAYAT LIVE میں کہہ دیا تھا، ترمیم نوشتہ دیوار، آئینی عدالتیں (بنچ ناگزیر)، آئین اور پارلیمنٹ سپریم لہٰذا ترمیم منظور ہوئی اور عدلیہ کو عدلیہ سے آزادی مل گئی۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جلا وطن تھیں بلاول بھٹو دبئی اپنے گھر میں دیواروں سے فٹ بال کھیلا کرتے تھے، سیاست کے نگر میں پاکستان کے مظلوم ترین بچے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے تھے جو اپنے والدین کے جیتے جی بھی محروم رہے۔ کل تک جو اردو میں ایک فقرہ مکمل کرنے میں دشواری محسوس کرتا تھا آج اس نے 26 ویں آئینی ترمیم کے مشن کی تکمیل کرکے ثابت کر دیا کہ آج وہ سب سے اہم اور زیرک ترین سیاست دان ہے۔ معروف دانشور، فنکار اور لاجواب میڈیا پرسن سہیل احمد (عزیزی) ہم دوستوں کی نجی محفل میں متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ بلاول کو بچہ سمجھنے والے ہی بچے ہیں۔ وہ سیاسی اور شعوری اعتبار سے 500سالہ بابا ہے، مجھے 26ویں آئینی ترمیم کی براہ راست ٹی وی پر کارروائی میں سہیل احمد صاحب (عزیزی) کے الفاظ یاد آ رہے تھے اور اتفاق سے 20اکتوبر کی ہی ان کے بیٹے کی شادی اور اپنے دوسرے عزیز بھانجے عمار سلیم ایڈووکیٹ کی منگنی کی تقریب میں شرکت بھی کرنا تھی جہاں پر خاندان کے دیگر لوگ نامور ڈاکٹر آصف جاوید (گوجرانوالہ) بڑے بھائی گلزار احمد بٹ سینئر سپرنٹنڈنٹ جیل کوآرڈی نیٹر وفاقی محتسب اعلیٰ لاہور رینج، ذوالفقار بٹ ڈی ایس پی، ڈپٹی کلکٹر کسٹم حمیرہ جاوید، عثمان ٹیپو ایس پی، ماریہ جاوید ڈپٹی سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی، وقار حسین ڈپٹی سیکرٹری فنانس، اسفند یار بٹ پولیس آفیسر، معروف میڈیا پرسن ایڈمن آفیسر قونصل خانہ قازقستان ابوذر معظم بٹ، امیر حمزہ آصف انچارج پشاور ظلمی ٹی وی اینکر اور ہوسٹ پروگرام ہوٹل فار یو Discover Pakistan، معروف تاجر و کاروباری شخصیت سیٹھ شہباز نور، دانیال گلزار بٹ کار کنگڈم والے کے علاوہ، امریکہ پلٹ ریاض پہلوان، نامور باڈی بلڈر بابر بٹ، مراد کاظمی، محمد الفت ملک، شباب بشارت کے علاوہ وکلا و دیگر سرکاری و اعلیٰ افسران موجود تھے۔ گویا یہ آئینی ترمیم جہاں سیاست دانوں اور اقتدار کے ایوانوں میں زیر بحث اور موضوع تھی وہاں نجی، خاندانی اور شادی بیاہ کی تقریبات میں موضوع بحث تھی۔
26 ویں آئینی ترمیم میں تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لیا گیا حتیٰ کہ سزایافتہ بانی پی ٹی آئی کو بھی رابطے میں لیا گیا ان کے پارٹی کے زعماء سے ملاقات کرائی گئی مگر بانی پی ٹی آئی جیل سے نہ نکال سکنے پر رہنمائوں سے ناراض، ترمیم کے نکات پر اعتراض کوئی نہیں کیا۔ بس مزید وقت مشاورت کے نام پر مانگا‘‘ ساتھ ہی بانی پی ٹی آئی نے غصے سے کہا کہ جیل سے نکلنے کا جو پلان دیا تھا اس پر کسی نے عمل نہیں کیا، کہا تھا ایس سی او کے موقع پر احتجاج کرنا ہے، آپ لوگوں کے تمام احتجاج فلاپ ہوئے، میرے دیئے ہوئے منصوبے پر عمل کریں گے تو میں باہر آ سکوں گا‘‘ یہ تھا بانی پی ٹی آئی کا ترمیم کے حوالے سے موقف گویا وہ احتجاج، این آر او کے متمنی ہیں۔ گویا پی ٹی آئی کو 26 ویں ترمیم پر نکات کے اعتبار سے کوئی اعتراض سامنے نہیں سوائے اس کے کہ ’’میں نہ مانوں‘‘ بہرحال الزامات اور محض الزامات سامنے آئے جن کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اسمبلی اور پی ٹی آئی کی قیادت نے سابق وزیراعظم مرحوم جونیجو کے وقت کے معروف پارلیمنٹرین حاجی سیف اللہ کا کردار ادا کیا یعنی صرف مخالفانہ تقریریں کر کے حاضری لگوائی جبکہ ترمیم کے کسی نکتہ پر کوئی قابل ذکر اعتراض نہ کیا محض ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کی بات کہہ کر اپنی جماعت کا ’’فرض کفایہ‘‘ ادا کر دیا یعنی سارے پراسیس میں ساتھ ساتھ رہی اور بالآخر یوٹرن لے لیا۔ پوری دنیا میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے تقرر کا نظام مختلف ہے مگر جمہوری ممالک میں اس کی بنیاد پارلیمنٹ ہی ہے جیسے امریکہ کی کانگریس کے مشورے پر امریکی صدر تقرری کرتا ہے۔ دراصل اللہ کریم حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہماری اعلیٰ عدلیہ نے تو حدوں کی بھی حدیں اڑا کر رکھ دی تھیں جبکہ جج ہمیشہ فیصلے کے ذریعے بولتے ہیں۔ یہ ریمارکس اور مکالموں کے ذریعے میڈیا پر شہرت پاتے تھے۔ 75 سال میں سیاسی اعتبار سے عدلیہ نے ایک بھی فیصلہ ایسا نہ دیا جو آئین کے مطابق ہوتا ہمیشہ اپنی آئندہ مراعات اور مفادات کے تابع اور جانبداری کے ساتھ وطن عزیز کا ناقابل تلافی نقصان کیا۔ ایوب، ضیائ، مشرف کی حمایت کرکے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ پرویز مشرف کو تو آئین میں ترمیم کے اختیارات بھی دیئے۔ گریٹ بھٹو شہید کا عدالتی قتل، قوم کو سولی پر لٹکا گیا۔ ہم بھیڑیں نہیں، بھڑ ہیں کے مکالمے ججز کو زیب دیتے ہیں؟ پوری پوری فیملی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگی۔ 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی دھمکی دے کر 19ویں ترمیم کرا کر عدالتی حکمرانی کی بنیاد رکھ دی اور پھر ایسے ایسے بے ہودہ فیصلے کیے کہ وطن عزیز جس کا متحمل نہیں تھا۔ کوئی کلرک بھی اس آسانی سے نوکری سے نہیں نکلتا جس طرح منتخب وزیراعظم سولی چڑھائے، وزارت عظمیٰ سے فارغ کیے۔ بلاول بھٹو جسٹس افتخار کو انصاف کے دروازے پر بیٹھا دجال قرار دیتے رہے۔
صدر آصف علی زرداری پر آخری مقدمہ تھا کہ ایک کار ان کے کسی دوست نے ایمبیسی کے نام پر ڈیوٹی کے بغیر کلیئر کرائی تھی۔ گاڑی پر مقدمہ واہیات تھا جس کا صدر زرداری سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایک دن جسٹس افتخار کی عدالت میں تھے۔ آصف علی زرداری نے جسٹس افتخار سے کہا کہ آپ کچھ بھی فیصلہ کر دیں مگر فیصلہ کر دیں۔ جسٹس افتخار کی مخصوص رگ پھڑکی اس نے کہا کہ آپ فیصلہ کہتے ہیں ابھی تو ہم نے آپ کے مقدمہ کی سماعت مقرر کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ انہیں معزولی کے بعد وعدہ کے مطابق سکرپٹ کا حصہ ہونے پر جنرل کیانی نے بحال کرا دیا۔ 18ویں ترمیم پر 19ویں ترمیم بلیک میلنگ کے ذریعے کرانے کا بلاول بھٹو نے ازالہ کر کے قوم پر احسان کیا، شہبازشریف حکومت نے احسان کیا۔ دراصل عدلیہ کی آزادی پر قدغن نہیں پارلیمینٹ اور قوم آزاد ہوئی ہے۔ عدلیہ سے عدلیہ آزاد ہوئی۔ مولانا نے لفظی حمایت کرکے پی ٹی آئی کا دل رکھا ہے ورنہ کالا سانپ اسی کو کہا ہے جو ان کو ڈیزل کہتا تھا البتہ بلاول نے سیاسی بات کی ہے کالا سانپ ماورائے آئین اقدامات ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.