(گزشتہ سے پیوستہ)
مکہ مکرمہ میں ابتدائی طور پر تین راتوں کے قیام اور پھر مدینہ منورہ سے واپسی پر میرے اور اہلیہ محترمہ کے تقریباً اڑھائی راتوں کے قیام کو کچھ ایسا طویل نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس دوران مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے فوراً بعد اور بعد میں مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ واپسی پر دو عمرو ں کی ادائیگی جہاں اہم مصروفیت رہی وہاں روازنہ خانہ کعبہ کا کم از کم ایک طواف اور مسجد الحرام میں پنجگانہ نمازوں کی ادائیگی بھی روزانہ معمول کا حصہ تھی۔ اس کے ساتھ ہوٹل سے مسجد الحرام تک آنے جانے کے لیے جو وقت صرف ہوتا تھا وہ الگ تھا۔ یہ ایک طرح کی بھر پور مصروفیت تھی جس میں میرے لیے مسجد الحرام کے تمام حصوں خاص طور پر ان حصوں جو مسجد الحرام کی وسعت ، کشادگی، فراخی اور زیبائش و آرائش کے فقید المثال شاہ عبداللہ Expansion منصوبے کے تحت زیرِ تکمیل ہیں یا اسے سے قبل ۱۹۸۳ ء میں ہمارے حج کے بعد شاہ فہد Expansion منصوبے کے تحت مکمل ہوئے اُن سب تک رسائی یا ان میں جا کر کوئی نماز ادا کرنا یا ان کا قریب سے مشاہدہ کرنا آسان نہیں تھا۔ اسی طرح ہوٹل سے مسجد الحرام جاتے ہوئے شارع ابراہیم خلیل ، اس پر کبوتر چوک اور اس سے آگے باب فہد کو جانے والے راستے اور اس کے اطراف میں مردو خواتین کے لیے نمازوں کی ادائیگی کے لیے مخصوص احاطوں سے ہٹ کر دیگر جگہوں تک رسائی اورگھومنے کا کوئی وقت نہیں تھا۔ اس کے باوجود بھی کہا جا سکتا ہے کہ بندہ ِ حقیر پرُ تقصیر نے مسجد الحرام کے اندرونی حصوں ، بر آمدوں ، اس کے دروازوں اور ان کے اوپر بنے بلند و بالا اور پُر شکوہ میناروں کو حتیٰ الوسع اپنے اندر سمونے کے کوشش کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسجد الحرام کا پورا محلِ وقوع بڑی حد تک ذہن کے نہاں خانے میں موجود ہے جس کو سامنے رکھ کر کچھ خیال آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی خیال آرائی کے تحت مسجد الحرام کے کچھ دروازوں یا ابواب (Gates) کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کا بھی بڑا مقام اور تاریخی حیثیت ہے۔
مسجد الحرام کے دروازوں (Gates) کا ذکر کرتے ہوئے ابتدا میں مسجد الحرام کے ایک تاریخی دروازے باب اُمِ ہانیؓ (گیٹ نمبر 87) سے کروں گا۔ جیسے اس سے قبل لکھا جا چکا ہے کہ19 جولائی کو میں نے بابِ اُمِ ہانیؓ کے بارے میں باب فہد پر متعین سرکاری اہلکاروں سے پوچھا کہ کیا وہ اس کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اُن کے اِس بارے میں لا علم ہونے پر مجھے افسوس ہوا۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ ۱۹۸۳ء میں جب میں اپنی والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ کے ساتھ حج پر آیا تھا تو مسجد الحرام کی تقریباً جنوبی سمت جہاں اب بابِ فہد (مسجد الحرام کا گیٹ 79) ہے اِسی گرو نواح میں ایک کشادہ دروازہ ہوا کرتا تھا جس پر بابِ اُمِ ہانیؓ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ ہم اسی دروازے سے مسجد الحرام میں آیا جایا کرتا تھے۔ میں نے انہیں یہ روایت بھی بتائی کہ بابِ اُمِ ہانیؓ کی خاص بات یہ بھی سمجھی جاتی تھی کہ عازمینِ حج جب حج سے فارغ ہونے کے بعد مکہ سے روانگی سے قبل خانہ کعبہ کا آخری طواف جسے طواف ِوداع کہا جاتا ہے کر کے فارغ ہوتے تھے تو اِس گیٹ (بابِ اُمِ ہانیؓ) سے کے راستے مسجد الحرام سے باہر نکلا کرتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ۱۹۸۳ء میں اپنے حج کے موقع پر اس روائیت پر عمل کیا اور بابِ اُمِ ہانیؓ سے باہر نکلتے ہوئے میری نگاہیں پیچھے خانہ کعبہ کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میری ان باتوں کو سن کر وہ دونوں سرکاری اہلکار جن میں ایک محض عربی بولنے اور سمجھنے والا اور دوسرا اردو بولنے اور سمجھنے والا کوئی پاکستانی یا بنگالی تھا کچھ بھی نہ بول سکے سوائے اس کے کہ ان کے چہروں پر خندہِ استہزاء تھا اور وہ مجھے وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کر رہے تھے۔
سچی بات ہے کہ بابِ اُمِ ہانی ؓ کا ذکر ہو یا حضرت اُمِ ہانیؓ کا تذکرہ ، دونوں کی میرے لیے بڑی قدر و منزلت ہے۔ حضرت اُمِ ہانی ؓ حضور نبی پاک ﷺ کے مہربان چچا حضرت ابو طالب کی بیٹی ، آپ ﷺ کی چچازاد بہن اور حضرت علیؓ کی سگی ہمشیرہ تھیں۔ آپ ؓ کا نام فاختہ یا ہند تھا لیکن اپنی کنیت اُمِ ہانیؓ سے مشہور ہوئیں۔ آپ ؓ کی شادی قبیلہ بنو مخزوم کے ایک نوجوان ہبیرہ بن ابی وہب (یا ہبیرہ بن عمرو) سے ہوئی۔ آپ ؓ نے جلد ہی اسلام قبول کر لیا لیکن اپنے خاوند اور سُسرال کے اسلام دشمن ہونے کی وجہ سے قبولِ اسلام کا اعلان نہ کیا۔ حضرت اُمِ ہانی ؓ فہم و فراست ، فطانت و ذہانت، محبت و شفقت ، سخاوت و فیاضی اور صبر و استقامت میں بے مثال تھیں۔ آپ ؓ کو حضور پاک ﷺ سے بے پناہ عقیدت اور محبت تھی۔ حضور پاک ﷺ بھی آپ کی بڑی قدر ومنزلت کرتے تھے۔ آپ ﷺ کے سفر ِ معراج کے بارے میں احادیث ِ مبارکہ میں بیان ہوا ہے کہ آپ ﷺ کا یہ سفر حضرت اُمِ ہانیؓ کے گھر سے شروع ہوا تھا جہاں آپ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے ہوئے تھے۔ اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں یہ بھی مروی ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریم ﷺ حضرت اُمِ ہانی ؓ کے گھر تشریف لے گئے ۔ وہاں آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور آٹھ رکعت نمازِ چاشت پڑھی۔
حضرت اُمِ ہانیؓ سے 146 احادیث مروی ہیں ۔ اِن کے فضائل کا تذکرہ مزید طویل ہو سکتا ہے لیکن مسجد الحرام کے دیگر کچھ دروازوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ مسجد الحرام کے اہم اور بڑے دروازوں یا (ابواب Gates ) میں باب الملک عبدالعزیز یا باب ملک کے ساتھ باب الصنعا ، باب عمرہ، باب السلام، باب ملک فہد اور باب ملک عبداللہ اور باب الفتح زیادہ نمایاں ہیں۔ باب ملک یا باب ملک عبدالعزیز مسجد الحرام کا گیٹ نمبر1 ہے جو موجودہ سعودی حکمران خاندان کے بانی ملک عبدالعزیز کے نام سے منسوب ہے۔ تین دروازوں اور اوپر بنے دو بلند و بالا عظیم الشان میناروں والا یہ باب مسجد الحرام کے جانب جنوب (یا کسی حد تک جنوب مشرق) واقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۳ء میں حج کے موقع پر میں نے اور میرے بڑے بھائی حاجی ملک غلام رازق نے مسجد الحرام کے اندر زیادہ رَش ہونے کی وجہ سے جمعہ کی ایک نماز باب الملک عبدالعزیز کی سیڑھیوں پر پڑھی تھی۔
بابِ الصنعامسجد الحرام کا ایک اور بڑا اہم اور تاریخی گیٹ ہے جس کا نمبر12 ہے۔ اس پر ایک بلند و بالا مینار اور گنبد بنا ہوا ہے۔ یہ جبلِ صفا کے جنوبی کونے میں مسجد الحرام کی شمالی سمت میں واقع ہے اور اس سے سعی تک براہِ راست رسائی ملتی ہے۔ باب ِ عمرہ گیٹ نمبر63 مسجد الحرام کی مغربی یا کسی حد تک شمال مغربی سمت میں واقع مسجد الحرام کا ایک اوربڑا اور تاریخی گیٹ ہے۔ اس کے بارے میںروایت ہے کہ نبی پاک ﷺ اسی راستے سے عمرے کے لیے حرمِ کعبہ میں داخل ہوئے تھے۔ شاہ عبداللہ Expansion منصوبے کے تحت اس کی از سرِ نو تعمیر اور زیبائش و آرائش کا کام کیا گیا ہے۔ اس پر دو بڑے مینار ہیں جن کی آرائش کو مکمل کیا جارہاہے۔
باب الملک فہد مسجد الحرام کا گیٹ نمبر79 ہے جو مسجد الحرام کے تقریباً جنوبی سمت یا جنوب مشرقی سمت میں واقع ہے۔ تین دروازوں والے اس وسیع و عریض گیٹ پر دو عظیم الشان مینار بنے ہوئے ہیں۔ اس کی تعمیر مسجد الحرام کے شاہ فہد Expansion منصوبے کے تحت1982 تا1988کے دوران مکمل ہوئی۔ اس سے مطاف تک براہِ راست رسائی بھی ملتی ہے۔مسجد الحرام کے دروازوں (ابواب Gates) کا تذکرہ کچھ پھیلتا جا رہا ہے۔ باب ملک عبداللہ کا ذکر کر کے اس کوتمام کرتے ہیں۔ با ب عبداللہ جو مسجد الحرام کا گیٹ 100 ہے۔ یہ مسجد الحرام کے شاہ عبداللہ Expansion منصوبے کے تحت مسجد الحرام کے شمال مغرب میں مسجد الحرام کی وسعت ، فراخی ، کشادگی کے زیرِ تعمیر حصے میں بنایا گیا ہے۔ تین محراب دار دروازوں والے اس وسیع و عریض گیٹ کے اوپر دو عالیشان مینار بنے ہوئے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.