ترمیم کا سانپ

71

 

گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے آئینی ترامیم کا معاملہ سانپ کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے ویسے تو جس طرح 18ویں ترمیم کے لئے ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ گیا تھا تو اس کے سامنے ایک ماہ کا عرصہ تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہاں مسئلہ قاضی صاحب کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کا ہے کہ جسے حکومت ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف نے بھی ریڈ لائن بنا رکھا ہے حکومت ہر صورت یہ چاہتی ہے کہ کچھ بھی ہو لیکن 26ویں آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے پہلے پہلے ہو جائے اور حزب اختلاف یعنی تحریک انصاف کی پوری کوشش ہے کہ یہ معاملہ پچیس کے بعد تک چلا جائے اس حوالے سے دونوں اطراف کے جو خدشات ہیں ان میں وزن ہے میرا جج اور تیرا جج کی سوچ نے یہ سارے مسائل پیدا کئے ہیں تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اگر یہ ترامیم 25 اکتوبر سے پہلے ہو گئیں کہ جن کا محور و مرکز عدالتی اصلاحات ہیں تو آئینی عدالت بنتی ہے یا آئینی بینچ اگر ان میں تقرر کا اختیار حکومت کے پاس چلا گیا اور حکومت میرے جج نہیں بلکہ اپنے جج مقرر کر دے گی تو پھر آئینی معاملات پر اس کی شنوائی نہیں ہو سکے گی اور ترامیم کی منظوری کے بعد قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی میں اگر ان ترامیم کو چیلنج کیا گیا تو سپریم کورٹ اس پٹیشن کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گی اور آئینی ترامیم کے بعد چاہے آئینی عدالت بنتی ہے یا آئینی بینچ بنتا ہے دونوں صورتوں میں حکومت کی مشکلات میں کافی کمی آ سکتی ہے۔
دوسری طرف حکومتی خدشات میں بھی خاصا وزن ہے اور کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں ایک تو ثاقب نثار صاحب کے دور سے نواز لیگ کو خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے بڑے سنجیدہ تحفظات ہیں اور گذشتہ دو ڈھائی سال کے دوران جس طرح کے فیصلے آئے ہیں اور "گڈ ٹو سی یو” اور بندیال صاحب کا نیب کو حکم دینا کہ انھیں رات اپنے ریسٹ ہاؤس میں رکھیں اور ان کے عمران خان کے ساتھ ڈائیلاگ کہ آپ رات دوستوں کے ساتھ گپ شپ کریں اور عمران خان کو ملزمان کے بجائے ججز گیٹ سے سپریم کورٹ لانا یہ سب باتیں حکومت کے لئے بڑے سنجیدہ معاملات ہیں اور اب جس طرح مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا اور اس پر مزید ستم یہ کہ الیکشن کمیشن کی درخواست پر جس ٹائمنگ کے ساتھ اس فیصلے کی تشریح سامنے آئی اس نے بھی حکومتی صفوں میں مستقبل کے حوالے سے خوف کا عنصر شامل کر دیا ہے اور سب سے بڑی بات کہ اس میں سچائی ہے یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر تحریک انصاف کی قیادت نے ایک پٹیشن تیار کر رکھی ہے اور وہ بس قاضی صاحب کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں جیسے ہی ان کی جگہ دوسرے چیف جسٹس چارج لیں گے تو اس کے فوری بعد اس پٹیشن کو دائر کر دیا جائے گا کہ جس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی جائے گی فروری 2024 کے الیکشن پر ایک جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو فارم 45 اور فارم 47 کی جانچ کرے اور اگر ایسا کوئی جوڈیشل کمیشن بن جاتا ہے تو تحریک انصاف کو پورا یقین ہے کہ اس جوڈیشل کمیشن کی فائنڈنگ کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ خاص طور پر کراچی میں متحدہ کی سیٹیں کافی کم ہو جائیں گی اور یہ تمام نشستیں تحریک انصاف کو مل جائیں گی جس کے بعد وہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم اور پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کا کہیں گے جو کہ حاصل نہیں ہو پائے گا اور اس طرح وفاق اور صوبوں میں موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی جگہ تحریک انصاف کی حکومتیں آ جائیں گی۔
جمعرات کی رات کو تحریک انصاف کے وفد کی ایک بار پھر مولانا سے ملاقات ہوئی اور ملاقات کے آخر میں مولانا نے موجودہ صورت حال کے تناظر میں ایک مرتبہ اپنا مشہور و معروف انقلابی جملہ دہرایا کہ ” ہم نے تو پہلے دن ہی حکومتی مسودے کو مسترد کر دیا تھا اور آج بھی مسترد کرتے ہیں ” جبکہ تحریک انصاف والوں کا اس حوالے سے کوئی بھی موقف نہیں ہے اس لئے کہ ان کی ابھی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہی نہیں ہوئی تحریک انصاف کے مولانا کی رہائش گاہ پر حکومتی وفد نے بھی حاضری دی لیکن کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آ سکی یہ سب اپنی جگہ لیکن اس دوران اگر چیف الیکشن کمیشن کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر ز کی طرف سے لکھے گئے خطوط کی روشنی میں حکومت کے حق میں فیصلہ آ گیا تو یہ ساری ملاقاتیں اور آنیاں جانیاں دھری کی دھری رہ جانی ہیں کوئی وکلاء تحریک چلتی ہے احتجاج ہوتا یہ سب بعد کی باتیں ہوں گی لیکن پھر حکومت اپنی من مانی ترامیم کر لے گی اور ایسی صورت میں حکومت کے لئے سب ہرا ہرا ہو گا اس کے بعد تحریک انصاف پوری کوشش کرے گی کہ اپنے طور پر احتجاج کرے لیکن ساتھ ساتھ وکلا برادری اور جس طرح لاہور میں ایک طالبہ کے متعلق فیک نیوز کو لے کر کوشش کی گئی کہ طلبہ برادری کو سڑکوں پر لایا جائے تو اسی طرح تحریک انصاف اگر عدالتی محاذ پر کمزور پڑے گی تو وہ حکومت کے خلاف دیگر محاذ کھولنے کی پوری کوشش کرے گی لیکن دیکھتے ہیں کہ ان ترامیم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.