بلیو اکانومی اور پاکستان کی ترقی کے امکانات

81

پاکستان کو کئی دہائیوں سے معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بے روزگاری اور افراط زر کے بھوت پر قابو پانا لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر کرنے کے لیے بہت ضروری ہو چکا ہے۔ افراط زر پر قابو پانے میں موجودہ حکومت کو کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل ہوئی ہے تاہم ابھی اس ضمن میں مزید اقدامات کرنا ضروری ہے۔ گھریلو استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے روک کر لوگوں میں بچت اور سرمایہ کاری کا رجحان پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔درآمدات کی قیمتوں میں اضافے نے کئی صنعتوں کے لیے مشکلات پیداکی ہیں۔ ان سب مسائل سے نکلنے کے لیے پاکستان کو معاشی ترقی کے متبادل طریقوں کو تلاش کرنا ہو گا اور اپنے موجودہ وسائل کو بہتر طور پر بروئے کار لا کر ان سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔ پاکستان میں متبادل اشیا کی پیدائش سے برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور اہم درآمدات کی قیمتوں میں کمی کی بدولت افراط زر پر قابو پانا آسان ہو سکتا ہے۔ہمارے ملک میں ابھی بہت سے ایسے شعبے موجود ہیں جن کی پیداواری صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا اور بعض اطراف میں توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔
بلیو اکانومی پاکستانی معیشت کو ترقی دینے کا ایک نیا وسیلہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بلیو اکانومی (Blue Economy) کا مطلب ہے سمندری وسائل کا پائیدار استعمال ہے جو کہ اقتصادی ترقی، معاشرتی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنے پر مرکوز ہے۔ اس میں سمندری زراعت، ماہی گیری، سمندری سیاحت، بحری تجارت، اور سمندری توانائی شامل ہیں۔ پاکستان کی سمندری حدود متنوع اور وسیع مقامات پر مشتمل ہیں۔ پاکستان کے پاس 1,046 کلومیٹر طویل سمندری ساحل ہے، جو مختلف سمندری وسائل کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔
بلیو اکانومی پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، خاص طور پر سمندری وسائل کے صحیح استعمال کی بدولت ماہی گیری، سیاحت اور سمندری تجارت جیسے شعبوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ماہی گیری کے علاوہ سمندری پراڈکٹس کی پراسیسنگ ، جہاز رانی، شپ بریکنگ اور مینگروز بھی بلیو اکانومی میں ترقی کا سبب بن سکتے ہیں۔ پائیدار اور مناسب پالیسی سازی کے ذریعے سمندری ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے جو ایک طویل مدتی اور پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے۔ سمندری سیاحت سے حاصل ہونے والے فوائد بھی معیشت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق دنیا کی بلیو اکانومی کی GNP پچیس سو ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جبکہ پاکستان کی بلیو اکانومی کی GNP دو ارب ڈالر سے کم ہے۔ دو انڈیا حتیٰ کہ بنگلہ دیش سے بھی بہت کم ہے۔
پاکستان میں سمندری سیاحت کے کئی مقامات ہیں جو اپنے قدرتی حسن اور ثقافتی ورثے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان میں سندھ کے ساحل شامل ہیں۔کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، جہاں مختلف ساحل جیسے کہ Clifton Beach، Hawksbay، Sandspit، اور French Beach مقبول ہیں۔ منوڑا کراچی کے قریب واقع ایک خوبصورت جزیرہ ہے جہاں سیاح سکون اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔چنکیو کراچی کے قریب ایک خوبصورت ساحل ہے، جو کم ہجوم ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔گوادر شہر اپنی خوبصورت بندرگاہ اور ساحل کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہاں کے ساحل خصوصاً Siyani Beach اور Pasni Beach سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔مکران ساحل بلوچستان میں واقع ہے اور ایک طویل اور خوبصورت ساحلی پٹی ہے جو قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ کیچ کے علاقوں میں بھی کچھ خوبصورت ساحل موجود ہیں، جیسے کہ Kund Malir Beachجو قدرتی حسن سے بھرپور ہے۔ نیلانی جزیرہ بلوچستان کے سمندر میں واقع ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی اور سکون کے لیے مشہور ہے۔ تھرپارکراگرچہ سمندر سے دور ہے، مگر یہاں کے کچھ مقامات جیسے کہ Keenjhar Lake سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔یہ مقامات نہ صرف قدرتی خوبصورتی کے حامل ہیں بلکہ سیاحوں کے لیے مختلف سرگرمیوں کی بھی پیشکش کرتے ہیں، جو سمندری سیاحت کو مزید دلچسپ بناتے ہیں۔
بلیو اکانوی میں تیز رفتار ترقی کے لیے پاکستان میں موجود سمندری معیشت کا از سر نو جائزہ لینے کے بعد مضبوط اور Long term پالیسی تیار کرنی چاہیے جس میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں کے لیے سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہوں۔ اگر اس شعبے میں کسی سینٹر آف ایکسیلنس کا قیام عمل میں لایا جائے تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ملک کی بہترین جامعات میں سمندری علوم کے علاوہ بزنس اور اکنامکس کے ریسرچ سکالرز کو تحقیق کی ترغیب دے کر ریسرچ گرانٹ دی جانی چاہیے اور قابل عمل منصوبوں پر تیزی سے کام کرنا چاہیے۔ اس میدان میں پہلے سے جاری امورکا جائزہ لے کر ان کی ترقی کی رفتار کو بڑھانا اشد ضروری ہے۔مزید برآں اس وقت نئے شپ یارڈ بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان نیوی کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
اس شعبے کے ایک ماہر پروفیسر ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد صاحب نے گراں قدر تحقیقی مقالے لکھے ہیں اور ان کی اہم اور قابل ذکر کتابوں میں
impact of” Pakistan Maritime affairs on blue economy in backdrop of CPEC ”
اور
” Pakistan Maritime tourism ”
شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان نیوی میں ایک اہم عہدے پر فائز رہے ہیں اور اپنی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔
پاکستان میں بلیو اکانومی کو فروغ دینے کے لیے کئی چیلنجز درپیش ہیں جیسے کہ سمندری آلودگی اور غیر قانونی ماہی گیری کے مسائل، سمندری بندرگاہوں اور دیگر بنیادی انفراسٹرکچر کی ضرورت وغیرہ۔ ساتھ ساتھ موثر پالیسیوں کو وضع کرنا بھی بہت اہم تصور کیا جاتا ہے جو بلیو اکانومی کو فروغ دے سکیں۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے تو پاکستان میں بلیو اکانومی کی ترقی ممکن ہے، لیکن اس کے لیے حکومتی اور نجی شعبے کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.