SCO کی سربراہی ہمارا ریاستی اعزاز

87

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) ایک عالمی علاقائی تنظیم ہے جو 23 سال پہلے 2001ء میں چائنا اور روس نے مل کر بنائی تھی تا کہ دنیا کی بڑی بڑی سپر پاورز کے مقابلے میں مقامی اور علاقائی تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔ اس کے دس ممبر ممالک میں چائنا، روس ، انڈیا، پاکستان، ایران، بیلا روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ یہ ایک سیاسی، اقتصادی، انٹرنیشنل سکیورٹی، دفاع اور انسداد دہشت گردی جیسے امور کے لیے مل کر کردار ادا کرنے جیسے مقاصد کے لیے قائم کی گئی ہے جو حالیہ برسوں میں کافی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ اس کا اجلاس ہر سال منعقد اور ایک سال کے لیے اس کی صدارت باری باری ہر ملک کو Rotation کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔
SCO کا حالیہ اجلاس اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس دفعہ اس کی سربراہی پاکستان کے حصے میں آئی ہے اور یہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے جو پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے ۔ چین اور روس کے وزیراعظم اور دیگر ممالک کے سربراہان مملکت حصہ لے رہے ہیں البتہ انڈیا نے وزیراعظم کے بجائے اپنے وزیر خارجہ جے شنکر کو نمائندگی کے لیے بھیجا ہے۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ روس ، چائنا، ایران جیسے کٹر امریکہ مخالف ممالک اس تنظیم میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جو آگے چل کر امریکہ کے لیے سیاسی اور اقتصادی چیلنج بن سکتے ہیں۔ جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کے ممالک کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو 25 فیصد رقبے اور 42 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے جس کی مجموعی GDP دنیا کا 36 فیصد ہے۔
پاکستان کے لیے اس کی اہمیت موجودہ حالات میں بہت زیادہ ہے کیونکہ پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے خطرات کے پیش نظر عالمی برادری پاکستان کا سفر کرنے سے پرہیز کرتی ہے اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آنے سے انکار کرتی رہی ہیں لیکن اس وقت اس کانفرنس سے پہلے بنگلہ دیش کی ٹیم دورہ کر چکی ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم اس وقت بھی دورے پر ہے۔ 11 سال کے بعد چینی وزیراعظم دورہ کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف ساری دنیا کی نظریں انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر پر ہیں۔ وزیراعظم مودی کو دعوت دی گئی تھی مگر انہوںنے اپنی جگہ وزیر خارجہ کو بھیجا ہے لیکن انڈین وزیر خارجہ کی طرف سے آنے سے پہلے ایک نہایت غیر سفارتی بیان سامنے آیا ہے کہ محض کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں دو طرفہ مذاکرات پروگرام میں شامل نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کانفرنس کی سائیڈ لائن پر ان کی کسی پاکستانی ہم منصب یا کسی نمائندے سے کوئی ملاقات ہوتی ہے یا نہیں۔ اس موقع پر بیک چینل ڈپلومیسی حرکت میں آئی ہوئی ہے لیکن قبل از وقت ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ معاملہ بہت نازک ہے اس سے پہلے 2015ء میں نواز شریف کے دور میں وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان آئی تھیں جس کے کچھ عرصہ بعد مودی نے رائے ونڈ کا اچانک دورہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنا شروع نہ ہو سکی۔ 2019ء میں انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کا متنازع سٹیٹس بدل کر اسے زبردستی انڈیا میں شامل کیا تو دونوں ممالک کے درمیان ہر طرح کے مذاکرات کا سلسلہ بند ہو گیا جو ابھی تک معطل ہے۔ نواز شریف نے ن لیگ کی انتخابی مہم میں جلسے میں کبوتر اڑا کر عندیہ دیا تھا کہ وہ ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارتی وزیر خارجہ پاکستانی حکام سے کوئی رسمی یا غیر رسمی علیک سلیک کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر SCO کے عمومی مقاصد کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے دو اہم ممبر ممالک انڈیا اور پاکستان کا آپس میں عدم تعاون اس کے مقاصد کو کھوکھلا کرنے کا باعث سمجھا جانا چاہیے۔ ایسے دو ممالک جن میں دنیا کی 20 فیصد آبادی مقیم ہے اگر یہ تنظیم صحیح معنوں میں ایک پائیدار خطے کے لیے کوشاں ہے تو ایک وقت آئے گا کہ چائنہ اور روس پاکستان و بھارت کو مجبور کریں گے کہ وہ آپسی اختلافات ختم کریں اور علاقائی تجارت اور connectivity کو فروغ دینے کے لیے دو طرفہ Black out ختم کریں لیکن اس کے لیے ابھی وقت درکار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان اور منگولیا اس کانفرنس کی ممبر شپ میں دلچسپ رکھتے ہیں اور انہیں مبصر observer کا درجہ حاصل ہے مگر افغانستان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی جس کی وجہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہے اگرSCO کے ایجنڈے کو اس کی اصل روح کے مطابق لاگو کیا جائے تو اس طرح کے تنازعات کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے۔
حالیہ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے TTP اور BLF جیسی دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا تاکہ کانفرنس کے انعقاد میں روڑے اٹکائے جائیں لیکن اس کے باوجود اس کانفرنس کا کامیابی سے منعقد ہوجانا پاکستان کی طرف سے ایک زبردست پیغام ہے کہ معاملات کنٹرول میں ہیں۔ کانفرنس کے موقع پر اپوزیشن PTI کی طرف سے اسلام آباد میں احتجاج کے اعلان کی وجہ سے بڑی غیر یقینی طاری تھی لیکن آخر کار پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال واپس لے لی جس سے ملک کے لیے ایک اچھا تاثر قائم ہوا۔
پاکستان کو اس کانفرنس سے فوری طور پر کچھ اقتصادی فوائد حاصل ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن اس اہم بلاک میں پاکستان کی موجودگی اور میزبانی ایک powerful indicator کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ علاوہ ازیں چینی وزیراعظم کی پاکستان آمد کے موقع پر بہت سے نئے پراجیکٹ فائنل ہوں گے یہاں ایک خبر یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے چائنا کے شروع کردہ 9 سپیشل اکنامک زون کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ان پر پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ اس طرح کی امتیازی پالیسیوں سے ٹیکس وصولی میں کمی آتی ہے جس سے ملکی آمدنی کو نقصان ہوتا ہے۔
ن لیگ کی حکومت SCO سمٹ کے انعقاد کو اپنے لیے سرخاب کا پر ظاہر کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاست پاکستان کی وجہ سے ن لیگ کو یہ اعزاز ملا ہے۔ یہ اجلاس پاکستان میں ہونا ہی تھا کیونکہ پاکستان اس کا ممبر ہے اور اس سال سربراہی کی باری پاکستان کی تھی یہاں کوئی بھی وزیراعظم ہوتا یہ اجلاس یہاں ہی ہونا تھا اتفاق کی بات ہے کہ یہ شہباز شریف کے دور میں ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرے۔

تبصرے بند ہیں.