واللہ علم اس میں کتنی صداقت ہے مگر یہ بات گائوں میں عام ہے کہ بے بے جیراں اپنی زندگی میں ایک بار فوت ہو چکی ہے۔ دروغ بر گردن راوی سنا ہے مرنے کے بعد بے بے جیراں عین اُس وقت اُٹھ کر بیٹھ گئی تھی جب رات کے وقت لالٹینوں کی روشنی میں اُسے لحد میں اُتارنے کے لیے اُس کے کفن پر آخری بار کافور چھڑکا جا رہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ منظر دیکھ کر بے بے جیراں کی ناگہانی موت پر دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے اُس کے سر کے سائیں بابے جورے اور مولوی صاحب سمیت وہاں موجود سبھی لوگوں کی دوڑیں لگ گئی تھیں بلکہ چند ایک کی تو دوڑتے ہوئے اُلٹ بازی بھی لگ گئی تھی۔ جس کے بعد رات کی اُس خوفناک تاریکی میں اکیلی بے بے جیراں اپنے ناک اور کانوں میں ٹھونسی روئی کے پھائے نکال کر بابے جورے، مولوی صاحب اور اُسے دفنانے کے لیے وہاں موجود سبھی لوگوں کو برُا بھلا کہتی کفن سمیت گائوں کی گلیوں سے گزرتی ہوئی اپنے گھر پہنچ گئی۔ اِس پر اُس اچانک خوشی سے سوگ والے گھر میں موجود بے بے جیراں کے قریبی عزیزوں اور دیگر افراد پر کیا گزری اس کے حوالے سے کوئی مستند روایت موجود نہیں ہے اس لیے کہ سوائے بے بے جیراں کے اُس وقت وہاں موجود موقع کے تمام گواہان ایک ایک کر کے عرصہ ہوا دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد بے بے جیراں تو جیسے مرنا ہی بھول گئی ہو، ساٹھ سے ستر، اسی، نوے اور پھر نجانے کب کی اپنی عمر کی شاندار سنچری مکمل کر کے بے بے ابھی تک ناصرف ناٹ آئوٹ ہے بلکہ دھواں دار انداز میں زندگی کی وکٹ پر بغیر کسی ڈر خوف کے بھر پور اعتماد کے ساتھ اپنی عمر کی اننگ کھیل رہی ہے۔ جو قارئین کرکٹ کی کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ اکثر اچھے اچھے کرکٹر بھی اپنی سنچری کے قریب جا کر ’’نروس نائن ٹیز‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن مجال ہے جو بے بے جیراں نے اس مرحلے پر بھی کوئی دبائو لیا ہو۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہر ذی روح کو ایک بار موت کا ذائقہ لازمی چکھنا ہوتا ہے اور چونکہ بے بے جیراں نے ایک بار فوت ہو کر اپنے حصے کی موت کا ذائقہ چکھ لیا ہے اس لیے اب موت کا فرشتہ بے بے جیراں کی روح قبض کرنے کے حوالے سے شاید کسی الجھن کا شکار ہو گیا ہے جس کا بے بے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اب فوت ہی نہیں ہو رہی۔ بے بے جیراں کی عمر کے حوالے سے گائوں میں متضاد روایات موجود ہیں اس لیے کہ جس زمانے میں بے بے جیراں پیدا ہوئی اُن وقتوں میں دیہات میں بندوں کی پیدائش کے اندراج کا رواج نہیں ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں اگر بے بے جیراں سے پوچھیں تو اپنے بزرگوں کی بتائی گئی معلومات کے مطابق اُسے صرف اتنا یاد ہے کہ اُس سال آندھی، جھکڑ، مینہ اور بہت بڑا طوفان آیا تھا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ آندھی جھکڑ، مینہ یا طوفان بے بے جیراں کی پیدائش کا نتیجہ تھا یا بے بے جیراں کی پیدائش اُس آندھی، مینہ، جھکڑ اور طوفان کا نتیجہ تھی۔ بہرحال وجہ جو بھی تھی وہ انہی دو وجوہات میں سے ایک تھی جس کے شدید اثرات آج بھی اُس کے کڑک اور رعب دار مزاج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بے بے جیراں ایک بھرے پُرے گھر کی سربراہ ہے جس میں اُس کی بہوئوں کی بہوئیں، پوتے، پوتیاں اور پڑپوتے، پڑپوتیاں بھی شامل ہیں مگر مجال ہے جو اُن میں سے کوئی اُس کے سامنے ذرا سا بھی’’کُسک‘‘ سکے۔ عام معنوں میں بے بے جیراں نہ تو کوئی سیاستدان ہے اور نہ ہی اُس کا کسی قسم کی سیاست سے کوئی تعلق ہے لیکن اندر سے وہ انتہائی ’’کھوچل‘‘ اور پوری ’’سیاستدان‘‘ ہے۔ وہ یوں کہ اس عمر میں بھی روپے پیسے سمیت گھر کے تمام اندرونی و بیرونی معاملات پر اُس کا مکمل کنٹرول ہے۔ دراصل بے بے جیراں کو یہ غلط فہمی ہے کہ اُس کے کنٹرول یا عمل دخل کے بغیر گھر کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اس لیے گھر کی سلامتی کی خاطر گھر کے اندرونی و بیرونی تمام تر معاملے میں اُس کا عمل دخل انتہائی ضروری ہے۔ بے بے جیراں کے بے جا دبائو اور ناروا پابندیوں سے عاجز ان کی کچھ بہوئوں کا آف دی ریکارڈ یہ کہنا ہے کہ بے بے جیراں کا جسم تو ایک عورت کا ہے لیکن اس کے اندر روح ہٹلر کی ہے۔ گلی محلے اور گھر کے چھوٹے چھوٹے بچوں میں تو یہاں تک مشہور ہے کہ جیسے کوئی اِچھا دھاری ناگ یا ناگن سو سال عمر پوری ہونے پر اپنی مرضی سے انسان کا روپ دھار سکتے ہیں اسی طرح بے بے جیراں نے بھی جب سے اپنی عمر کے سو سال مکمل کیے ہیں تب سے وہ رات کو سونے سے پہلے روز اِچھا دھاری ناگن کا روپ دھار لیتی ہے۔ بچوں کی اس سوچ اور خیالات کا بے بے جیراں کو بھی بخوبی علم ہے لیکن وہ اس الزام کو اپنے خلاف اپنی بہوئوں کا گمراہ کن پراپیگنڈہ قرار دے کر یکسر مسترد کر دیتی ہے۔ اس بار عید پر میرا گائوں جانا ہوا تو ایک عرصے کے بعد میری بے بے جیراں سے بھی ملاقات ہو گئی۔ میں نے آگے بڑھ کر بڑے ادب سے اُسے سلام کیا جس کے جواب میں بے بے جیراں نے وعلیکم سلام کہہ کر میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’پتر! میں نے سنا ہے تُو شہر جا کر کسی اخبار میں بھرتی ہو گیا ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’بے بے اخبار میں بھرتی نہیں ہوا بس کالم لکھتا ہوں‘‘۔ کہنے لگی ’’وہ کیا ہوتا ہے‘‘۔ میں نے بے بے کو آسان لفظوں میں بات سمجھانے کے لیے بتایا ’’بے بے میں اخبار میں حکومت کو مشورے دیتا ہوں‘‘۔ یہ سن کر وہ حیرانی سے پوچھنے لگی ’’ہائے ہائے! کیا اب تُو بھی اتنا سیانا ہو گیا ہے یہ بتا کیا حکومت والے تمہارے مشوروں کو مان بھی لیتے ہیں‘‘۔ میں نے شرارت کے موڈ میں بات ختم کرنے کے لیے کہا ’’بے بے! مانیں گے کیوں نہیں آخر انہوں نے حکومت بھی تو چلانی ہے اور جہاں تک سیانے ہونے کا تعلق ہے تو حکومتوں کو مشورے دینے کے لیے ضروری نہیں کہ بندہ سیانا بھی ہو‘‘۔ یہ سن کر بے بے کہنے لگی ’’پتر! پھر تو یہ بہت سوکھا کام ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’بے بے! یہ ہرگز سوکھا کام نہیں ہے اس کے لیے بندے کو اپنا ضمیر مار کر غلط کو درست اور درست کو غلط کہنا پڑتا ہے یعنی حکومت کا موڈ دیکھ کر اُسے اُس کی مرضی کا مشورہ دینے کا ہُنر آنا ضروری ہے اورکسی بھی باضمیر بندے کے لیے یہ انتہائی مشکل کام ہے، اسی لیے تو حکومتیں اس مشکل کام کے لیے چُن چُ کر قابل، ذہین اور تابعدار لوگوں کا انتخاب کرتی ہیں‘‘۔
تبصرے بند ہیں.