معیشت میں بہتری کے آثار

114

کچھ عرصہ پہلے ہم نے معیشت میں بہتری پر ایک سے زائد کالم لکھے تھے کہ جس وقت سعودی عرب، چین اور یو اے ای سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے ہو رہے تھے تو اس کے کچھ عرصہ بعد ہی ہمیں دوستوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ گیا اور اس میں دو طرح کے دوست تھے ایک تو وہ کہ جن کا تعلق تحریک انصاف سے تھا ان کا لہجہ ظاہر ہے کہ بڑا تنقیدی اور طنزیہ تھا کہ دیکھیں جی شاہ صاحب نے اربوں ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری کروا دی لیکن اب تک ٹکے کی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ یہ گروہ ایسا ہے کہ ان سے آپ لاکھ کہہ لیں ان کی ترلے منتیں کر لیں کہ بھائی آپ ہمیں چھوڑیں کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں آپ حکومت کو بھی رہنے دیں کہ وہ کیا کہتی ہے اور یہ بھی آپ کا حق ہے کہ آپ حکومت پر اور اپنے سیاسی مخالفین پر ڈٹ کر مثبت تنقید کریں لیکن خدارا جن مسائل اور عوامل پر آپ اپنے مخالفین کے لتے لیتے ہیں انہی مسائل اور عوامل کے حوالے سے گذشتہ گیارہ برسوں میں خیبر پختون خوا میں کیا ہوا ہے اور خاص طور پر فروری 2024کے الیکشن کے بعد پنجاب اور سندھ اگر عوام کی فلاح و بہبود کے متعلق کئے کام بتاتے ہیں تو آپ بھی بتائیں لیکن مجال ہے کہ اس طرف آئیں صرف اور صرف دوسروں پر تنقید ہی ان کا بیانیہ ہے جسے لے کر وہ چل رہے ہیں۔ ایک دوست نے واٹس ایپ کیا کہ ”جب تک آپ چالیس پچاس سالہ کارکردگی کا موازنہ ساڑھے تین سال سے کرتے رہیں گے تب تک ابہام کا شکار رہیں گے“۔میں نے اس کے جواب میں بس اتنالکھا کہ دفعہ کریں چالیس پچاس اور ستر سال کو آپ بھٹو صاحب کے 1972 سے 1975 تک کے چار سال کا موازنہ کر لیں تو پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں کہ وسرے دوست وہ تھے کہ جو فکر مند تھے کہ یہ سب کیوں نہیں ہوا۔ بات یہ ہے کہ آپ ذاتی سطح پر بھی اگر کوئی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں تو اس میں بھی کچھ عرصہ لگ جاتا ہے اور یہ تو ملکی سطح پر بڑے لیول کے معاہدے تھے جنھیں عملی شکل اختیار کرتے کچھ وقت لگنا تھا لیکن خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ معاشی میدان میں اب ابتدائی نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔
سعودی وزیر خالد بن عبد العزیز کی سربراہی میں 130رکنی سرمایہ کاری کا بڑا وفد پاکستان آیاجس نے دو ارب ڈالر کے معاہدے کئے جبکہ 2027 تک 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ اسی دوران ایشیائی ترقیاتی بنک کا ایک وفد بھی پاکستان میں تھا اور یہ پاکستان کو تین سال میں 6ارب 40کروڑ ڈالر دے گا اور اس سے پہلے آئی ایم ایف پاکستان کے لئے سات ارب ڈالر کے قرض پیکیج کی منظوری دے چکا ہے جس میں سے پہلی قسط ایک ارب دو کروڑ ڈالر پاکستان کو مل بھی چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ سعودی ارب ہو یا چین جیسے بڑے معاشی ممالک ان کی سرمایہ کاری اور آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بنک جیسے مالیاتی ادارے جب کسی ملک کو ڈالر دیتے ہیں تو یہ امر اس ملک کی معیشت پر ان کے اعتماد کا مظہر ہوتا ہے جس سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاروں کا پاکستان کی معیشت پر اعتماد بڑھتا ہے۔ پاکستان میں ایک عرصہ دراز سے دہشت گردی اور پھر سیاسی عدم استحکام نے اس طرح کی فضا قائم کر رکھی تھی کہ جس سے بیرون ملک سے تو کیا اندرون ملک کے سرمایہ کار بھی تجوریوں سے اپنا پیسہ نکالتے ہوئے ڈرتے تھے لیکن اب پروردگار کا شکر ہے کہ حالات بدل رہے ہیں اور ان میں بڑی مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں اس میں جہاں حکومت کی بہتر کارکردگی ہے تو وہیں پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی انتھک محنت کا اعتراف نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی۔کہتے ہیں کہ نیت نیک ہو تو منزل آسان ہو ہی جاتی ہے اندازہ کریں کہ کہاں ایک جماعت اور اس کے سربراہ ملک کے دیوالیہ ہونے کی امید میں ہر روز ڈیفالٹ کی خوش خبریاں سنا رہے تھے کہاں آج صورت حال اس حد تک بدل چکی ہے کہ دنیا بھر سے اچھی خبروں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ پہلی سہ ماہی جولائی تا ستمبر 2024 میں ترسیلات زر میں ریکارڈ 39%اضافہ ہوا اور ان تین مہینوں میں ماہانہ 2.92ارب ڈالر کی اوسط سے 8.8ارب ڈالر بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے۔ یہ اس دعوے کی نفی ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں اور وہ عمران خان پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی سٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں کو چھو کر نئے ریکارڈ بنا رہی ہے اور 86000کا ہدف عبور کر چکی ہے۔ یہ پاکستان کی معیشت کے لئے انتہائی مثبت اشاریے ہیں کہ جن سے پاکستان کی معیشت میں بہتری کا پتا چلتا ہے اور کچھ عرصہ پہلے موڈیز اور بلوم برگ نے بھی پاکستان کی معیشت میں بہتری کی تصدیق کی تھی اور پاکستانی معیشت کو ایک درجہ پلس کیا تھا۔ اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے زر مبادلہ کے زخائر میں بہتری آئی ہے بلکہ بیرون اور اندرون ملک سرمایہ کاروں کے پاکستان پر اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ تمام اقدامات بہت مثبت ہیں اور امید ہے کہ کچھ عرصہ بعد ان کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔ایک اور بات کہ ایک سے زیادہ جگہوں سے اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ آئی پی پیز سے بات کر کے بجلی کے نرخوں پر بھی نظر ثانی کا امکان ہے۔ کالم کے آخر میں میرا سوال ان سے ہے کہ جنھوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملک و قوم کے مفاد کو پاؤں تلے روندھتے ہوئے پاکستان کے قرض پیکیج کو رکوانے کے لئے آئی ایم ایف کو خط لکھے اور واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈ آفس پر مظاہرے کئے اور ساتھ ساتھ یورپین یونین کو بھی پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم کرنے جیسے ملک دشمن اقدام کے لئے ہزاروں ای میلز کرائیں تو اان کے مذموم عزائم تو پورے نہیں ہوئے لیکن قوم کے سامنے ان کے چہرے ضرور بے نقاب ہو ئے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.