معروف مذہبی سکالر اور ادیان کے تقابلی جائزہ کے ماہر ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک ماہ کے سرکاری دورہ پر ان دنوں پاکستان میں ہیں ۔ ذاکر نائیک کے دورہِ پاکستان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ لوگ ذاکر نائیک کو پاکستان مدعو کرنے پر سوال اٹھا رہے ہیں توکچھ اس کا بھرپور خیر مقدم کر رہے ہیں۔ڈاکٹر ذاکر نائیک جہاں اپنی بعض تقاریر کے باعث تنقید کی زد میں رہے وہیں دنیا بھر میںان کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ قارئین کیلئے یہ بات شاید حیرت کا باعث ہو کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اس سے پہلے1991ء میں بھی پاکستان آچکے ہیں ‘اپنے اس دورہ کے دوران وہ لاہور میںنامور سکالر ڈاکٹر اسرار احمد سے ملے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد سے میں نے پوچھا کہ میرا ایم بی بی ایس مکمل ہو گیا ہے اور اب میں پریکٹس کروں گا اور ساتھ ساتھ دعوت کا کام بھی کروں گا۔چونکہ ڈاکٹر اسرار احمد خود بھی میڈیکل ڈاکٹر تھے لہٰذا ان کا کہنا تھا کہ آپ کو ڈاکٹر اور داعی بننے میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا کیونکہ دونوں کام آپ ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک نے والد سے ماہانہ پانچ ہزار انڈین روپے اور ایک چھوٹا سا کمرہ لینے کی درخواست کی اور یوں اسی کمرے میں انہوں نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ پھر رفتہ رفتہ اپنی کامل توجہ دعوت الی اللہ کی طرف مبذول کر لی اور انڈیا سمیت مختلف ممالک میں مذہبی لیکچرز دینا شروع کیے جنہیں بہت پذیرائی ملی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک عالمی مبلغ اسلام شیخ احمد دیدات سے بھی بڑے متاثر ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پیس ٹی وی پر لیکچرز کا ایک سلسلہ شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں ہندوئوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔اس بات سے بھارت میں موجود انتہاپسند ہندو تنظیمیں آپ کے سخت خلاف ہو گئی تھیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی زندگی کا مختصر ذکر کیا جائے تو آپ1965ء میں ممبئی کے علاقے ڈونگری میں پیدا ہوئے ۔ ممبئی کے سینٹ پیٹر ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعدجواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں میڈیکل میں داخلہ لیا۔دو سال پڑھنے کے بعد نیشنل ٹوپی والا میڈیکل کالج مائیگریشن کیا اور وہاں سے ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ابتدائی معاشی حالات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کے والد اتنے غریب تھے کہ ان کی میڈیکل فیس بھرنے کے لیے دودھ اور اخبار مختلف گھروں میں تقسیم کرتے تھے لیکن بعدازاں اپنی محنت کی بدولت بھارت کے مشہور سائیکاٹرسٹ بنے۔ ذاکر نائیک نے اپنی زندگی کی کہانی پر مبنی ویڈیو سیریز میں بتایا ہے کہ ان کے والد ڈاکٹر عبدالکریم نائیک انڈیا کے مشہور ماہر نفسیات تھے۔1987 ء میں جنوبی افریقا کے مشہور مذہبی سکالر شیخ احمد دیدات ممبئی کے دورہ پر آئے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے والد ان سے ملے اور بعد میں ذاکر کو بھی ملوایا، پہلی ملاقات میں ہی وہ ان سے بہت متاثر ہو ئے۔ اس کے بعد احمد دیدات کو ایک بار پھر انڈیا کے دورے کی درخواست کی گئی اور 1988 ء میں دوبارہ شیخ احمد دیدات ممبئی آئے اور 10 دن انہی کے یہاں قیام کیا ، اس دوران ڈاکٹر ذاکر ان کی تعلیمات سے متاثر ہونا شروع ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر ذاکر جنوبی افریقہ گئے، جہاںجوانی میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی سطح پر ایک مسجد میں مجمع سے خطاب کیا اور لیکچر دیاجسے بہت سراہا گیا۔ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنی فاؤنڈیشن بنانے سے 2007 ء تک خوب محنت کی اور مختلف فورمز اور مختلف ممالک میں مذہبی سکالر اور محقق کی حیثیت سے اجتماعات سے خطاب کیا۔ دنیا بھر میں مشہور مذہبی تقاریب اور مناظروں میں شرکت کی۔ بھارت میں اسلام کی تبلیغ سے ہندو بڑے متاثر ہو رہے تھے تاہم 2007 ء کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک کو کچھ سیاسی مسائل کا سامنا کرنا شروع ہوگیا۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ 2010 ء میں میری ایک ویڈیو پر تنقید کی گئی اور انڈیا میں بھی کچھ سیاسی جماعتوں نے میری تقاریر پر اعتراضات اٹھانا شروع کیے۔ اس سے پہلے 2008 ء میں بنگلہ دیش میں ایک دھماکہ ہوا تھا اور انڈیا کے کچھ اخبارات نے خبر دی تھی کہ حملہ آوروں میں سے ایک ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر تھا۔ تاہم ڈاکٹر نائیک کے مطابق بنگلہ دیش کے اخبارات نے اس خبر کی تصحیح کر دی تھی لیکن انڈیا کے اخبارات نے نہیں کی کہ وہ فین تو ہو سکتا ہے لیکن متاثر ہونے کا عنصر اس میں نہیں تھا۔ اس واقعہ کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک بھارت میں ایک متنازع شخصیت کے طور پر جانے گئے اور ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے مقدمات بھی درج ہوئے۔ ذاکر نائیک کی زندگی میں مشکلات کا دور اس وقت شروع ہوا جب 2016 ء میں بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کے حملے میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ تفتیش کاروں کے مطابق گرفتار ہونے والے شدت پسندوں میں سے ایک نے بتایا تھا کہ وہ ذاکر نائیک کی تقاریر سے متاثر تھے۔ ذاکر نائیک نے ستمبر 2024ء میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں اس بارے میں کہا تھا کہ مجھ پر محض اس بنیاد پر الزام لگایا گیا کہ حملہ آوروں میں سے ایک نے فیس بک پر مجھے فالو کیا ہوا تھا۔بھارت میں 2016ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تنظیم پر پابندی لگا دی گئی ۔ دنیا
کے تقریباً 20 ممالک نے انہیں رہائش پذیر ہونے کی درخواست کی لیکن ملائیشیا کی خوبصورتی اور یہاں اسلام کی پرورش کی وجہ سے انہوں نے ملائیشیا کا انتخاب کیا اور 2016 میں یہاں شفٹ ہو گئے۔ حال ہی میں ایک پاکستانی یوٹیوبر نے ذاکر نائیک سے دورانِ انٹرویو سوال کیا تھا کہ جب آپ ملائیشیا گئے تھے تو آپ نے پاکستان آنے کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟اس پرذاکر نائیک نے جواب دیا تھا کہ’ میرے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا آسان ہے، وہاں جانا چاہتا تو جا سکتا تھا۔ اسلام میں قاعدہ ہے کہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹا نقصان اٹھاؤ۔ اگر میں پاکستان جاتا تو بھارت میں موجود میری مخالف قوتیں مجھ پر پاکستانی ایجنسیوں سے وابستہ ہونے کا الزام لگاتے۔ اسی وجہ سے میں پاکستان نہیں گیا۔ 2019 ء میں جب یہ واضح ہو گیا کہ واپس (انڈیا) جانے کے امکانات نہیں ہیں تو میں نے سوچا کہ اب ہم پاکستان جا سکتے ہیں۔ میرا منصوبہ 2020ء کے آخر میں آنے کا تھا۔ میں نے لوگوں سے رابطہ کیا اور مکمل پلان بنا لیا گیا لیکن کووڈ آ گیا تھا‘۔ڈاکٹر ذاکر نائیک اب پاکستان میں ہیں‘ اپنے دورہ پاکستان کے دوران وہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں چھوٹے بڑے متعدد اجتماعات سے خطاب کریں گے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا دورہ ٔ پاکستان وطن عزیز کیلئے کس حد تک فائدہ مند ثابت ہوتا ہے؟ ۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.