انصاف دینے والے جب انصاف نہیں دینگے تو…؟

49

(دوسری و آخری قسط)
ایسا فیصلہ پہلے ہماری عدالتی تاریخ میں نہیں سنا گیا جس میں دھمکی بھی دی گئی ہو یہی نہیں جب آٹھ ججوں نے پی ٹی آئی کو بن مانگے ریلیف دیا تو ہر قانون دان کا کہنا تھا حکومت کو دو تہائی اکثریت سے محروم کرنے کے لیے عدالت دیوار بن گئی تاکہ حکومت آئینی ترامیم نہ لا سکے۔ پھر آزاد ادارے الیکشن کمیشن نے اس فیصلہ کی وضاحت مانگی تو یہی جج مختصر فیصلہ سنانے کے بعد چھٹیوں پر چلے گئے۔ اس کے بعد حکومت آئینی ترامیم لانے لگی تو پورے 51 دن کے بعد الیکشن کمیشن پر تاخیری حربوں کا الزام لگاتے ہوئے بجائے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے۔ انہوں نے وضاحت جاری کر دی کہ اب یہ اراکین پی ٹی آئی کے تصور ہونگے۔ اس کو اگر حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس وضاحت کا آئین اور قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو محض ذاتی مفاد، مکاری اور تعصب کاری لگتی ہے۔ یہاں پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چند لوگ نظام انصاف کو پہلے کی طرح یرغمال بنانا چاہتے ہیں اور یہ ججز ملک و قوم کی بجائے اپنی ذات کو ایک مخصوص جماعت سے جوڑے ہوئے ہیں۔ جن آٹھ ججوں نے حکومت کو دو تہائی اکثریت سے محروم کیا ان میں چار تو مستقبل کے چیف جسٹس ہیں جنہیں دوستوں نے ثاقب نثار،گلزار اور بندیال کے ذریعے سپریم کورٹ پہنچایا تاکہ مستقبل قریب میں اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں میرٹ سے ہٹ کر بٹھائے جج ان کا تحفظ کر سکیں اور آج بھی یہی سابقہ دوست اپنے کئے ناکردہ کرتوتوں پر کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں اور انکے لگائے یہ پودے عدالت میں بیٹھ کر وقت کی رفتار کو بھی تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جسٹس منیب سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھے اور سندھ بار ایسوسی ایشن کے شدید احتجاج کے باوجود ثاقب نثار جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ کی مدد سے انہی تاریخوں میں سپریم کورٹ لے کر آئے تاکہ وہ مستقبل میں چیف جسٹس بن سکیں۔ جب اسی عدلیہ کی تاریخ رقم ہو رہی تھی اور اس کے ساتھ پوری قوم نے دیکھا جسٹس منیب ہر اس سیاسی مقدمہ کے بنچ میں شامل ہوتے جو حکومت کے خلاف ہوتا پھر جسٹس عائشہ ملک جو کہ بہت جونیئر جج تھیں جسٹس گلزار احمد نے انہیں 2021 میں سپریم کورٹ لانے کی کوشش اسوقت کی جب سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چھٹیوں پر تھے۔ دوسری طرف پاکستان بار کونسل اور ملک بھر کی وکلا تنظیموں کے شدید احتجاج اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ووٹ ٹائی ہونے پر جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں لانے کی پہلی کوشش کامیاب نہ ہو سکی مگر بعد ازاں دوسری کوشش میں یہ سازش کامیاب ہو گئی اور ایک جونیئر جج کو سپریم کورٹ پہنچا دیا گیا اس میں بھی چار اراکین نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا لیکن چیف جسٹس کے ایک ویٹو ووٹ کی وجہ سے ان کو اکثریت ملی۔ اب جسٹس شاہد وحید جو چوتھے نمبر کے جونیئر جج تھے انہیں بھی وکلا تنظیموں کے احتجاج کے باوجود سپریم کورٹ پہنچا دیا گیا۔ ان کے بارے میں تو یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ جج ہیں جو میرٹ کا قتل کر کے چور دروازوں سے سپریم کورٹ میں لائے گئے اور اب یہی ججز ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے ذریعے ہونے والی آئینی ترامیم کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ یہاں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ عظیم عدلیہ کو کیوں گند کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور وہ بھی اس وقت جب ہم معاشی دلدل سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض عالمی طاقتیں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پیچھے ہیں اور وہ خانہ جنگی اور افراتفری کی سازشیں کروا رہی ہیں۔ دوسری طرف آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پوری کرنے کیلئے چین ،متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے پاکستان تعاون رہا ہے اور ادھر بعض ججز ہیں کہ اس ملک میں بے سکونی اور افراتفری جاری رکھنے کا خواہاں ہیں۔ میرے نزدیک پلوں کے نیچے اب بہت پانی بہہ گیا ہے اور جن مفادست لوگوں نے انہیں اپنے مقاصد کیلئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ان کو پہنچایا وہ اپنے کرتوتوں کا جواب دے رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک آئینی ترامیم ہونا ہی ہیں یہی بات جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے بعض ججوں کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی بندوق سے شکار کرنے کی عادت رہی ہے اور اس مرتبہ ان کے ہاتھ میں وہ بندوق نہیں، اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ اپنی آقائوں کا خود ہی شکار ہو جائیں گے۔
ہمیں تو اب ان اداروں سے خطرات کی بو آنے لگی ہے جن سے پوری قوم کو انصاف کی توقع ہے مگر نجانے کس وقت کیا فیصلہ آ جائے اور جب انصاف دلانے والے اداروں سے اعتماد ہی اٹھ جائے تو پھر اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ نثار عدالت سے لے کر بندیال عدالت تک اور موجودہ بعض ججز کے عدالتی کردار پر نظر ڈالیں تو تصویر کے دونوں رخ سچائی کے ساتھ آپ کے سامنے آ جائیں گے اور آپ ان کے کئے ایک ایک فیصلے کو پڑھ لیں تو آپ کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نظر آ جائیگا کہ جہاں مداخلت دکھائی نہ دے رہی ہو۔
اور آخری بات…!
ہمارے بعض حکمران سابقہ اور موجودہ طبقات کی جانب سے شعوری طور پر پھیلائی گئی جہالت اور گمراہی کی اندھیری رات میں ظلم و استحصال کے ظالمانہ سیاسی و معاشرتی نظام اور کارپوریٹ کیپٹل ازم اور مذہبی دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کا جذبہ رکھنے والے لوگ آج ایک نہیں کئی الجھنوں کا شکار ہو چکے ہیں گو وہ سچائی کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور جس ادارے نے انہیں انصاف کا راستہ دیتے ہوئے ایک خوبصورت منزل کی طرف لے جانا ہے وہ راستہ اور منزل انہی لوگوں نے دھندلی کر دی ہے۔

تبصرے بند ہیں.