’’یہ پھر 9مئی کرنے والے تھے ۔۔‘‘

145

پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے سابق ہیڈڈاکٹر فرحان ورک بتاتے ہیں کہ یہ ایک بہت خوفناک پلاننگ تھی لیکن اس وقت جب ساری کہانی فلاپ ہوگئی ہے تو ہم آپ کو حقیقت بتاتے ہیں کہ عمران خان کا شیطانی منصوبہ کیا تھا۔ کچھ عجیب چیزیں جو آپ نے نوٹ کی ہوں گی کہ تحریک انصاف کی ساری قیادت ڈی چوک سے غائب ہو گئی۔ دوسرے گنڈاپور کا بھی ڈی چوک سے فرار ہوناکیا یہ محض اتفاق تھا یا یہ لوگ واقعی بھاگ گئے؟ایسا کچھ نہیں، عمران خان کو جیل میں ہر ملاقات میں تحریک انصاف کے لیڈرز یہ بتاتے ہیں کہ جناب انقلاب دستک دے رہا ہے، لوگ حکومت کو گالیاں دے رہے ہیں، حکومت سے شدید نفرت ہے۔ آپ اشارہ دیں تو عوام جیل توڑدیں گے۔ یہ سب سن کر عمران خان کے ذہن میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ شاید حقیقت بھی یہی ہے سو اس نے جیل میں یہ پلان بنایا کہ مجھے ایک اور 9 مئی کی کوشش کرنی چاہئے، اب تو میں سال بھرسے جیل میں ہوں اس لئے لوگ میری محبت میں پاگل ہو رہے ہوںگے۔پلان یہ تھا کہ اس مرتبہ ایسا 9 مئی کرواؤ جو پہلے سے زیادہ سیف اینڈسائونڈ ہو۔ طے کیا گیا کہ پچھلے والے 9 مئی میں ڈاکٹر یاسمین راشدسمیت تحریک انصاف کی پوری قیادت گراؤنڈ پر نظر آرہی تھی مگر اس مرتبہ کسی لیڈرنے گراؤنڈ پر نظر نہیں آنا۔منصوبہ بنا کہ یہ لوگ خیبر پختونخواہ کے سرکاری وسائل استعمال کریں گے، وہاں سے بلوائی اور سادہ لباس میں ملبوس پولیس کے مسلح لوگ لائیں گے، راولپنڈی اسلام آباد میں پہلے ہی کافی افغانی ہیں، وہاں کا جتھہ پہلے پہنچے گا، پیچھے سے گنڈاپور آجائے گا لیکن تحریک انصاف کی قیادت کہیں نظر نہیں آئے گی تاکہ یہ تاثر نہ ملے کہ لوگوں کو مشتعل پی ٹی آئی کے رہنما کر رہے ہیں۔ یہ لوگ آتے ہی ڈی چوک کا کنٹرول سنبھال لیں گے جس کے ساتھ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور ڈپلومیٹک انکلیو سمیت تمام اہم مقامات ہیں۔گنڈاپور کو ہدایت جاری کی گئی کہ تمھارا کام صرف خیبر پختونخواہ سے بلوائی لانا ہے، اس کے بعد تمہاری ضرورت نہیں ہوگی۔ تم نے جائے وقوعہ سے فوری فرار ہوجانا ہے تاکہ کل تم پر بھی کوئی الزام نہ آئے۔ گنڈاپور نے ایسا ہی کیا اور جیسے ہی خیبر پختونخواہ سے بلوائی بلیو ایریا پہنچے وہ عمران خان کی ہدایت کے مطابق پہلے اس نے جلوس چھوڑا اور پھر خیبرپختونخوا ہاؤس سے بھی غائب ہو گیا۔ اس امر کو خود علی امین گنڈا پور تسلیم کر رہا ہے کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ عمران خان کے بتائے ہوئے منصوبے اوراس کی دی ہوئی ہدایات کے عین مطابق ہوا۔ پی ٹی آئی کے اہم ارکان اسمبلی اور رہنماؤں کی عدم موجودگی ایک منصوبے کا حصہ تھی۔ وہ ایک شتر بے مہار ہجوم سے پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ، ایوان وزیراعظم ہی نہیں بلکہ ڈپلومیٹک انکلیو کو جلوانا چاہتے تھے۔
ڈاکٹر فرحان ورک بتاتے ہیں کہ ان بلوائیوں کے پہنچنے کے بعد اگلا قدم پنجاب میں بالخصوص لاہور، گجرانوالہ، وزیر آباد، گجرات، میانوالی سے لوگوں کا لانگ مارچ کروانا تھا کہ وہ سب ڈی چوک پہنچیں گے، عمارتوں پر حملہ کریں گے، ریاست مفلوج ہوجائے گی، فوج پیچھے ہٹ جائے گی، پھر عمران خان رہا ہو کر حکومت میں آجائے گا اگر احتجاج کے پہلے یا دوسرے دن، فائرنگ ہوجائے ،خون بہے تو پھر سونے پر سہاگہ ہوگا اور انقلاب میں مزید تیزی آجائے گی۔ان اطلاعات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ ایک درجن کے لگ بھگ کے پی پولیس کے ایسے اہلکار پکڑے گئے جو باقاعدہ حملے کر رہے تھے مگر وہ سادہ لباس میں تھے اور وہ افغانی بھی دھر لئے گئے جو دو، دو ہزا ر روپوں پر دیہاڑی پر لائے گئے تھے۔ ان میں سے بعض کے پاس پٹرول کی بوتلیں بھی تھیں اور انہیں کہا گیا تھا کہ مختلف جگہوں پر پٹرول چھڑک کے آگ لگا دینی ہے۔ یہ تجزیہ اس لئے بھی قرین قیاس لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اس سے پہلے سپریم کورٹ کی ایک اجازت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد میں آ گ لگا چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں پٹرول بموں کے ساتھ پولیس اور رینجرز کا مقابلہ کیا جا چکا ہے لیکن اللہ تعالی کا کرم ہوا اور پاکستان میں فساد پھیلانے کی یہ کوشش ناکام ہوگئی جس کی ڈاکٹرصاحب کے مطابق پانچ وجوہات تھیں۔ پہلی، پنجاب سے تحریک انصاف کی مقبولیت کا خاتمہ، دوسری، خیبر پختونخواہ سے عوام کی زیادہ تعداد کا نہ ہونا کہ سرکاری مشینری اورملازمین کے باوجود یہ کسی موقعے پر بھی پانچ ہزار سے زیادہ نہ ہوسکے۔تیسرے، مجمع میں موجود عوام کا خود بھی عمران خان کی توقعات کے برعکس فتنہ فساد کا موڈ نہیں تھا، وہ چاہ رہے تھے کہ قیادت آغاز کرے۔ اس کی ایک توجیہہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کرائے پر لائے گئے لوگ علی امین گنڈا پور کے غائب ہونے سے مشتعل ہونے کی بجائے خوفزدہ ہو گئے ۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ اگر ایک وزیراعلیٰ غائب ہوسکتا ہے اور پی ٹی آئی اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگا رہی تھی تو ان کی اوقات کیا ہے لہٰذا انہوںنے بھاگنے میں عافیت سمجھی۔ڈاکٹر فرحان ورک کہتے ہیں کہ اس ناکامی میں چوتھی بڑی وجہ جنرل فیض کے فسادی دماغ کی غیر موجودگی تھی۔ بہت سارے ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل فیض کے ساتھی دو ریٹائرڈ بریگیڈئیر زمان پارک اور کور کمانڈر ہاؤس لاہور کے حملوں کی پلاننگ کرتے رہے تھے اور وہ فزیکلی موجود ہو کے تربیت دیتے اور رہنمائی کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ پانچویں اہم ترین وجہ پشاور میں افغان مہاجرین کے کمشنر کی تبدیلی تھی۔
ٍایک سوال جو ٹی وی چینلوں سمیت ہر جگہ پوچھا جا رہا ہے وہ اس احتجاج کے مقاصدا ور ٹائمنگ ہے۔ سنگجانی اور کاہنہ کے بعد ایک مرتبہ پھر ڈی چوک کا انتخاب کیا گیا۔ بنیادی طورپر پہلے دو سے تین احتجاج وارم اپ تھے، منصوبہ بندی تھے۔جس وقت یہ احتجاج کیا جا رہا تھا اس وقت ملائشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم تین روزہ تاریخی دورے پر پاکستان میں تھے اور اس کے ساتھ ہی شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ اور پھر سربراہی کانفرنس سر پر تھی۔ یہ سب بھانپ گئے ہیں کہ نو مئی کی طرز پر یہ 2014ء کی سازش کا ایکشن ری پلے تھا جب چینی صدر کی آمد اور سی پیک کے افتتاح کی تقریب کو سبوتاژ کیا گیا تھا مگر اس مرتبہ حکومت ہوشیار بھی تھی اوراس کی صفوں میں میر جعفر اور میر صادق بھی نہیں تھے۔ میاں نواز شریف وضع دار، سیدھے سادے اور بھولے بھالے شخص ہیں مگر شہباز شریف انتہائی ہوشیار ، کائیاں ، سمجھدار اور تیز ہیں۔ ان کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ تحریک انصاف کو لاشوں کا تحفہ ہرگز نہ ملے مگرنرمی ایسی بھی نہ ہو کہ وہ اپنے شیطانی مقاصد میں کامیاب ہوجائے۔ پی ٹی آئی کا شیطانی منصوبہ ساز ذہن شہباز شریف کی صلاحیتوں کو جاننے اور سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ پی ٹی آئی خبردار رہے کہ جس نے فتنے کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال کے اڈیالہ کی جیل تک پہنچایا ہے وہ اسے کہیں اور پارسل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.