عداس، امت آپ کی مقروض و شکر گزار ہے

96

نومبر دسمبر 2017 میں بھی عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی تو مکہ میں قیام کے دوران سوچا کہ طائف بھی جایا جائے۔ ٹیکسی والے سے کہہ دیا مگر اگلے دن میرا دل بالکل نہ چاہا حالانکہ سعودیہ کا پُر فضا سر سبز و شاداب علاقہ ہے۔ دراصل اس وقت میں طائف کیوں نہ گیا۔ ایک پس منظر میرے دل و دماغ، روح و خیال کو چھلنی کیے جا رہا تھا، وہ آقا کریمؓ کا طائف کا سفر تھا جیسا کہ رسول کریمؓ کی تبلیغ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ انہیں کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ مشرکین مکہ کے سرداروں کا فیصلہ تھا۔ اس صورت حال میں وہ خود بھی مکے سے ہجرت کر کے کسی اور شہر جا بسنے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔ کوئی ایسا شہر جہاں کے لوگوں کے دل اتنے سخت نہ ہوں، نفرتیں اتنی گہری نہ ہوں۔ غصے میں اتنی شدت نہ ہو۔ وہ جو خالق کائنات کے اتنے پیارے تھے، مکے کے گلی کوچوں میں ایک پل کے لیے بھی محفوظ نہیں تھے۔ وہ اکثر سوچا کرتے تھے کہ وہ طائف چلے جائیں، مکے سے جنوب میں ایک سر سبز، پُر فضا شہر جو ایک پہاڑی پر آباد تھا۔ صحرا کی جھلسا دینے والی حدت سے دور، پھلوں، باغوں، شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کا شہر۔ آخر ایک دن آپؓ نے طائف کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ طائف مکے سے ستر میل دور تھا اور حضورؓ، زید کو ساتھ لے کر پا پیادہ وہاں کے لیے روانہ ہو گئے۔ مکے کے یہ تاجر جو ایک زمانے میں کئی تیز رفتار اونٹوں کے مالک تھے، آج اللہ کی راہ میں خرچ کر کر کے اتنے مفلس ہو گئے کہ ان کے پاس سفر کے لیے کوئی سواری نہیں تھی۔ اس کرتے پر جو اس نے پہن رکھا تھا، جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے، ایک رومال تھا جو چہرے کو اڑ اڑ کر پڑنے والی گرم ریت سے بچانے کے کام آتا تھا۔ اس لباس میں وہ اتنے حسین لگ رہے تھے کہ میں نے کسی کو، کسی لباس میں ان سے خوبصورت نہیں پایا۔ یہ پھٹے پرانے کپڑے ان کے بدن پر زر تار پوشاک کی طرح سجے ہوئے تھے۔ جب وہ اس بے سر و سامانی میں رخصت ہو گئے۔ صحابہ کرام آقاؓ کے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی کشادہ پیشانی، ان کی عالی ظرفی اور نجابت کا مظہر تھی۔ ان کی مسکراہٹ روح میں خوشیوں کی لہر دوڑا دیتی تھی۔ ان کی خوب صورت متناسب آنکھوں کی سیاہی میں گہرے بادامی رنگ کی ہلکی سے آمیزش تھی۔ ہاتھ ملاتے تھے تو مضبوطی سے اور اس وقت تک گرفت ڈھیلی نہیں کرتے تھے جب تک دوسرا ان کا ہاتھ نہیں چھوڑتا تھا۔ زمین پر ان کے قدم اتنے ہلکے پڑتے تھے کہ لگتا تھا پانی پر چل رہے ہیں۔ پیچھے دیکھنے کے لیے مڑتے تھے تو صرف گردن نہیں موڑتے تھے بلکہ کمر سے ان کا سارا جسم ساتھ مڑتا تھا، یہ آقا کریم محمد مصطفی ؓ تھے۔ اللہ کے برگزیدہ رسولﷺ جو نبیوں میں پہلے نبی تھے جنہوں نے جانوروں پر رحم کرنے کی تاکید کی۔ ایک بار انہوں نے فرمایا تھا کہ بندہ ایک بلی پر ظلم کر کے جہنم میں جا سکتا ہے اور ایک بے زبان کو پانی پلا کر انعام پا سکتا ہے۔ اس ہستی کے ساتھ جو طائف کے سفر میں فکر مندی تھی صحابہؓ کہتے ہیں ہم نے سوچا کہ ان کا اس طرح جانا مناسب نہیں ہے۔ ان کے ساتھ کچھ اور لوگ ہونے چاہئیں۔ چنانچہ ان کے پیچھے پیچھے گئے اور تھوڑی دیر میں انہیں جا لیا۔ آقاؓ نے دیکھا تو واپس بھیج دیا۔ دل میں طرح طرح کے وسوسے اٹھتے تھے۔ سفر کے لیے صحرائے عرب کی روایتی نا سازگاری اور نا موافقت، دھوپ کی جھلسا دینے والی تپش، باد سموم، راستے کے کئی نا گہانی خطرات۔ کبھی راستے میں کنویں بھی سوکھے ملتے تھے اور پھر سب سے زیادہ دشمنوں کا خوف۔ ہزار باتیں تھیں جن کا رہ رہ کر صحابہ کرامؓ کو خیال آتا تھا، خدشات درست ثابت ہوئے، دو ہفتے بعد جب وہ واپس آئے تو پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ کمزور، نحیف، سارے بدن پر رستے ہوئے زخم۔ بڑی مشکل سے قدم اٹھا رہے تھے۔ آتے ہی ہاتھ کے اشارے سے پانی مانگا۔ پانی پی کر خاموشی سے اندر چلے گئے اور جا کر بستر پر لیٹ گئے۔ انہوں نے کچھ کہنا مناسب سمجھا نہ کسی کو سوال کی جرأت ہوئی۔ زیدؓ نے صحابہؓ کو تمام ماجرا سنایا۔ وہ خیر و عافیت سے طائف پہنچ گئے تھے۔ وہ سیدھے عمرو بن امیہ کے بیٹوں سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے۔ عمرو کے تین بیٹے طائف کے سب سے بااثر سردار تھے۔ وہ ان کے یہاں پہنچے تو دربار سا لگا ہوا تھا۔ تینوں بھائی گدوں پر بیٹھے تھے۔ سامنے انواع و اقسام کی اشیائے خورنی رکھی تھیں۔ شراب کا دور چل رہا تھا۔ انہوں نے رسالت مآبؓ کو نہایت حقارت سے دیکھا، اس انداز سے گویا کوئی کھیل ہاتھ آ گیا ہے اور اب تفریح رہے گی۔ محمدؓ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو جواب میں انہوں نے جو بد تہذیبی کی وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ بد اخلاقی کا عالم یہ کہ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر کنکر پتھر جو ہاتھ میں آیا اٹھا اٹھا کر رسول اللہ پر پھینکنے لگے۔ ان کے حواری بھی اس شغل میں ان کے شریک تھے۔ محلے کے بچے بھی شامل ہو گئے، چیختے چلاتے، طوفان برپا کرتے بچے جنہیں ہوش نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ زخموں سے نڈھال، وہاں سے جان بچا کر نکلے اور صحرا کی راہ لی۔ اس دن کے بارے میں وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ وہ ان کی زندگی کا بد ترین دن تھا۔ اس دن ان پر صرف ایک کرم ہوا۔ جب وہ شہر سے باہر صحرا کی طرف جا رہے تھے تو فصیل شہر سے باہر ایک باغ میں عداس نامی ایک عیسائی غلام کام کر رہا تھا۔ اس نے ان کی یہ حالت دیکھی تو انگوروں کا ایک خوشہ لا کر دیا۔ کیا خوش نصیب انسان تھا جس نے انگوروں کے ایک خوشے کے عوض جنت کا سودا کر لیا۔ عداس، مسلم امہ آپ کی شکر گزار اور مقروض ہے، آپ کے مقدر کو سلام پیش کرتی ہے۔ اب کی بار موقع ملا، زندگی نے وفا کی تو طائف بھی جائیں گے، صرف عداس کا شکریہ ادا کرنے۔ تاریخ کی کچھ کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عداس بعد میں اسلام لے آئے تھے۔ نبی کریمؐ کو انگور پیش کر کے انہوں نے اپنی عاقبت تو پہلے ہی سنوار لی تھی، ان صحابی کا درجہ بھی پا لیا۔ عداس کے حصہ میں جو آیا، کیا کسی کا مقدر ہے؟۔

تبصرے بند ہیں.