اصل معاشی بیل آؤٹ اندرون ملک ہے

70

حکومت وقت کو آئین میں ترمیم کی معصوم سی خواہش کے پیچھے طویل بقائے اقتدار کے حصول میں وقتی ناکامی اور اپوزیشن کی تمام تر مشکلات اور بحرانوں میں گھرے ماحول میں جاری بقا کی بے رحم جنگ میں عدالتی اور آئینی محاذ پر اس وقت سورج سوا نیزے پر ہے ایسا لگتا ہے کہ قاضی القضاٗ کے مدت ملازمت میں توسیع یا عدم توسیع کے علاوہ اور کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن اس سیاسی جنگ سے الگ تھلگ اور کوسوں دور سیاسی ملبے کے نیچے دبے ہوئے حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کو اگلے چار سال میں 100 بلین ڈالر کا کوہ ہمالیہ سے بڑا قرضہ واپس کرنا ہے۔ جس 7 بلین کے لیے آپ اتنے خوش ہو رہے ہیں اس کی شرائط اور ادھار کی اس رقم کو پرانے قرضے چکانے میں جھونکنے جیسے تلخ منصوبے ایک الگ داستان ہے۔
حکومت 7 ارب کے حصول کے لیے جتنا خوش ہو رہی ہے اس کے اثرات اگلے سال تک مزید گہرے ہوں گے جب عام آدمی کی زندگی مزید کٹھن ہونے جا رہی ہے ابھی تو شکر کریں کہ تیل کی عالمی منڈیوں میں قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے عوام کو اتفاقیہ ریلیف ملا ہوا ہے اس پر بھی حکومت نظریں گاڑے بیٹھی ہے کہ یہ موقع اچھا ہے پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرنے کا سنہری موقع یہی ہے۔ اس پر کام جاری ہے کہ کس طرح ملک میں پٹرول کو مزید سستا ہونے سے روکنا ہے۔
معاشی ابتری کی اس طویل شب تاریخ میں روشنی کی ایک کرن پھوٹی ہے لیکن اس کی طرف نہ کسی سیاستدان کا دھیان جا رہا ہے اور نہ ہی معیشت دانوں کا اور نہ ہی میڈیا میں اس پر کوئی مباحثہ ہو رہا ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی کو ادراک ہی نہیں ہے کہ کئی سال کی محنت کے بعد ماہرین ارضیات نے پاکستان کی سمندری حدود میں بہت بڑے تیل کے ذخائر کی نشاندہی کر دی ہے اور بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ اندازے درست ثابت ہوئے تو پاکستان میں عرب ممالک سے زیادہ مقدار میں تیل برآمد ہو گا جس سے نہ صرف پاکستان کے قرضے ختم ہوجائیں گے بلکہ 18 بلین ڈالر ماہانہ جو ہم تیل کی درآمد پر خرچ کر رہے
ہیں وہ بھی بچ جائے گا اور اگر یہ خبر درست ثابت ہوتی ہے آپ یقین کریں سرکاری خزانے میں اتنا پیسہ جمع ہو جائے گا کہ حکومت کو سمجھ نہیں آئے گی کہ اس کو کہاں کہاں خرچ کیا جائے۔
پٹرول کے بارے میں دنیا کے مؤقر عالمی اخبار "”oil Price” میں Alex Kimani نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں پاکستان میں پٹرولیم ذخائر کے دریافت اور وسیع امکانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جریدے نے اس رپورٹ پر جو سرخی لگائی ہے وہ نہایت منفی ہے۔ "Why no major oil company Rushing to drill pakistan’s huge oil Reservesیعنی بڑی آئل کمپنیاں پاکستان کے بہت بڑے پٹرول ذخیرے کی ڈرلنگ کے لیے کیوں آمادہ نہیں۔ وجوہات بڑی سنسنی خیز اور فکر انگیز ہیں کہ کہیں اتنا بڑا موقع پاکستان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے یہ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جس سے پاکستان کا معاشی نقشہ یکسر تبدیل ہونے کا قوی امکان ہے۔ تیل کی ممکنہ دریافت کی ا مید پر اس منصوبے پر پچھلے تین سال سے خاموشی سے کام ہو رہا تھاتین سالہ تلاش کا نتیجہ ہے کہ وہاں زیر سمندر ذخائر کی نشاندہی ہو گئی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہاں سے تیل نکالنے اور اس کی تجارتی فروخت کی منزل پر پہنچنے کے لیے کئی سال کا دورانیہ درکار ہے کہا جاتا ہے کہ اگلے 5 سال میں وہاں 5 بلین ڈالر کی ضرورت ہے پھر کہیں جا کر ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
اتنی بڑی خوشخبری کے ساتھ بدشگونی یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی آئل کمپنی پاکستان آنے پر آمادہ نہیں کہ یہاں آکر کام کا آغاز کیا جا سکے اس کی سب سے بڑی وجہ سکیورٹی اور لاء اینڈ آرڈر صورتحال ہے دوسرا پاکستان کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں کہ وہ اتنے بڑے اور طویل المدت پراجیکٹ کا خرچہ اٹھا سکے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس ّآپشن یہ ہو گا کہ وہ یہ سمندری سائٹ کسی غیر ملکی کمپنی کو ٹھیکے پر دے دے اور اس میں اپنا حصہ رکھ لے جس طرح بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر کے لیے کینیڈین کمپنی Barrick Gold کو 50 فیصد حصے پر Hire کیا گیا تھا مگر بلوچستان میں جاری شورش کی وجہ سے کمپنی کے کام کے آغاز میں تاخیر ہو رہی ہے۔
ہمیں ”آئل پرائس جریدے“کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان اپنی انرجی ضرورت میں 29 فیصد گیس، 85 فیصد پٹرول، 50 فیصد ایل این جی اور 20 فیصد کول برآمد کرنے پر مجبور ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے 2023 ء میں 17.5 بلین ڈالر کی انرجی ضروریات امپورٹ سے پوری کی ہیں لیکن اس منصوبے کو کامیاب کر کے ہمارا امپورٹ بل نہ صرف زیرو ہو جائے گابلکہ ہم زائد انرجی ایکسپورٹ کر کے اس سے منافع کما سکیں گے جو کہ 30 فیصد افراط زر کا شکار ملک کے لیے اتنی بڑی خبر ہے کہ قوم کو خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر نکلنا چاہیے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے 25 سے 35 ارب ڈالر درکار ہیں اگر ہم ان ذخائر کا 10 فیصد بھی استعمال میں لے آئیں تو یہ ہماری معاشی مشکل کشائی کے لیے کافی ہے۔ جریدے آئل پرائس نے پٹرول کے وزیر مصدق ملک کا بیان جو انہوں نے پارلیمنٹری کمیٹی کے سامنے دیا تھا وہ نقل کیا ہے کہ کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی اس منصوبے پر سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں بلکہ غیر ملکی کمپنیاں یہاں سے واپس جا رہی ہیں۔ ان حالات میں صرف چینی کمپنیاں ہی یہ کام کر سکتی ہیں لیکن چائنا والوں کی شرائط اور حصہ داری کی Ratio بہت زیادہ ہے اس سے پاکستان سے زیادہ چائنا فائدہ اٹھائے گا۔ اس وقت صرف پاکستان دوست اور حب الوطن سیاسی قیادت کا خلا پر ہو جائے تو پاکستان اپنی مشکلات پر قابو پا سکتا ہے۔
بنگلہ دیشی سابق وزیراعظم حسینہ واجد نے جب شمالی بنگلہ دیش کے21 اضلاع کو ڈھاکہ سے جوڑنے کا منصوبہ کا اعلان کیا تو کوئی غیر ملکی بینک قرضہ دینے پر تیار نہیں تھا انہوں نے قومی وسائل سے اس منصوبے کو مکمل کر کے دریائے پدما پر 6 کلو میٹر پل بنا کر 85 کلو میٹر فاصلہ کم کر دیا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک مثال ہے۔ ہمارے سیاسی خاندانوں کے پاس ذاتی پیسہ اتنی مقدار میں موجود ہے کہ وہ ملک کی خاطر اس پراجیکٹ کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.