مریم نواز پنجاب نہیں پاکستان کی بیٹی ہے

24

پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نوازکے حوالے سے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جو زبان استعمال کی ہے مجھے اِس پر کوئی حیرت نہیں کیونکہ اس سے پہلے لا تعداد مواقع پرآکسفورڈ کے تعلیم یافتہ اور موجودہ چانسلر کے امیدوار بانی چیئرمین پی ٹی آئی بھی ایسی واہیات گفتگو فرما چکے ہیں ۔ عمران نیازی نے عمر بھر کسی خاتون کا احترام نہیں کیا نہ جانے وہ اپنے خون کے رشتوں کا احترام کیسے کر لیتا ہے ۔ وہ نجی محفلوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں بھی ایسی ہی گفتگو کیا کرتا تھا ۔جس پر تحریک انصاف میں موجود معراج محمد خان کے ساتھی خون کے گھونٹ پی کرر ہ جاتے تھے ۔ عمران نیازی نے انتہائی محنت اور انتھک جدو جہد کے بعد غیر مہذب اور بد اخلاقوں کا پورا ٹولہ پاکستان سے ڈھونڈا ہے ۔پی ٹی آئی میں ایک گنڈا پور نہیں بلکہ یہ جماعت ہی گنڈا پوریوں کی ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ جو کام پہلے عمران نیازی ڈائس پر آ کر کیا کرتا تھا اب وہ گنڈا پور کے ذمے لگا دیا گیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ گنڈا پور کے منہ میں عمران نیازی کی دراز زبان ہے اور بانی یہ چاہتا ہے کہ اُس کی غیر موجودگی میں اُس کی بدزبانی کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے سو اب گنڈا پور یہ کام پوری دیانت داری سے انجام دے رہا ہے ۔ کاش! بنگلہ دیش کا حوالے دینے سے پہلے اُسے کوئی یہ بتا دیتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہتھیار پھینکنے والا جنرل ٹائیگر نیازی بانی چیئرمین کا انکل تھا سو اس قبیلے کے پاس تو اگر ہزاروں مسلح شیر دل جوان بھی ہوں تو یہ ہتھیار پھینک کر قوم کی تذلیل کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا اعزاز بھی ایک پٹھان کے پاس ہی ہے جو آج بھی سرکلر روڈ پشاور کے قبرستان میں لیٹا گنڈاپور کی تقریر پر شرمندہ ہو رہا ہو گا۔ یحییٰ خان جس کا شجرہ نسب نادر شاہ سے جا ملتا تھا اُسے شراب نوشی اور بازاری عورتوں سے ہی فرصت نہیں تھی ۔ یقینا گنڈا پور کے علم میں نہیں ہو گا کہ پاکستان بننے کے بعد دو انگریز آرمی چیفس کے بعد بنگلہ دیش بننے تک تین جرنیل ایوب خان، موسیٰ خان اور ٹکا خان تینوں پختون تھے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ذوالفقار علی بھٹو نے جسے آرمی چیف نامزد کیا وہ بھی ایک پختون جنرل گل حسن خان تھے سو بنگالیوں نے جو کچھ کیا پختون جرنیلوں کی سربراہی میں کیا۔
محترمہ مریم نواز صاحبہ سے سیکڑوں نظریاتی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ وہ پنجاب کی بیٹی ہیں ٗ پاکستان کی بیٹی ہیں سو اِس حوالے سے وہ نا صرف قابلِ احترام ہیں بلکہ ہمارا دین بھی ہمیں عورت کے احترام کا سختی سے حکم دیتا ہے لیکن دو نمبر ریاست مدینہ کے دعویداروں کو یا تو اسلامی اقدار کا علم نہیں یا پھر وہ اپنے قائد کا طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے بیٹیوں کو ماننے سے ہی انکاری ہیں ۔ پنجاب کی زرخیز زمینوں کے سورمائوں کو دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی ضرو رت ہی کبھی محسوس نہیں ہوئی یہ کام تو فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرنے والے پہاڑی یا صحرائی کرتے ہیں جن کی زندگیاں خوراک کی کمی کی وجہ سے مشکل ہوتی ہیں ا ور وہ زرخیز زمینوں پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں ۔ پنجاب کی سرزمین محبت اور امن کی زمین ہے یہاں کشادہ دل لوگ رہتے ہیں جو سب کا کھلے بازوئوں سے استقبال کرتے ہیں ۔ انہیں کھانے کیلئے اناج اور زندہ رہنے کیلئے روز گار دیتے ہیں لیکن پھر بھی اگر گنڈا پور کو لاہور پر شب خون مارنے کا شوق ہے تو اُسے چاہیے کہ ایک بار رنجیت سنگھ اورہری سنگھ کی تاریخ ضرور پڑھ کر آئے، مسلم پنجابیوں نے تو ہمیشہ انہیں اپنے مسلم بھائی ہونے کے رعایتی نمبر دیئے ہیں ۔ پنجاب پاکستان کی تمام بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھتا ہے اور وہ اُسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح ہمارے گھروں میں بیٹھی ہماری بیٹیاں ہیں لیکن اگر مریم نواز یا کسی اور پاکستانی خاتون کے بارے میں گنڈا پور نے دوبارہ ایسی گھٹیا زبان استعمال کی جو پختون روایات سے بھی متصادم ہے تو پھر مجھے لکھنے دیں کہ ابھی کل کی بات ہے کہ تم دو پولیس ملازمین کے آگے لگ کر سڑکوں پر بھاگ رہے تھے ۔ اس بار تمہیں شراب کو شہد بنانے کا موقع نہیں ملے گا ۔
میرا ذاتی تعلق موجودہ سیاست میں صرف عبد العلیم خان سے ہے ۔استحکام پارٹی چونکہ اس وقت اتحادی حکومت کا حصہ ہے اور برادرم عبد العلیم خان استحکام پاکستان پارٹی کے صدر بھی ہیں اور وفاقی وزارتیں بھی اُن کے پاس ہیں سو جو عبد العلیم خان کا دوست ہے وہ ہمارا بھی دوست ہے جس کا عبد العلیم خان سے اختلاف ہے اُس سے ہمارا بھی کھلا اختلاف ہے کہ پنجاب کے دوست تعلق نبھانا جانتے ہیں اور پھر عبد العلیم خان کو تو میں نے ہمیشہ ایک تعلق نبھانے والا بہترین دوست اور شفیق انسان پایا ہے سو جس حکومت کا عبد العلیم خان حصہ ہے اُسکی پنجاب کی وزیر اعلیٰ کا دفاع کرنا بھی میں اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتا ہوں ۔ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مسلم لیگ ن اب پاکستان میں ایک پرانی جماعت ہے لیکن اُسے جس طرح اپنی پنجاب کی وزیر اعلیٰ کادفاع کرنا چاہیے تھا اور گنڈا پور کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے تھا وہ اُس میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ن لیگ میں لوگوں نے وزارتیں اور عہدے تو لے لیے لیکن محترمہ مریم نواز کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو آصف علی زرداری کے وزیر اُ س کے ساتھ کرتے رہے ۔ آصف علی زرداری کی بھی سب سے بڑی بدقسمتی یہی تھی کہ اُس نے اپنی پہلی مدت میں جن کو وزیر مشیر بنایا اُن کے اندر اپنے لیڈر کادفاع کرنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی اور جن کے اندر صلاحیت تھی وہ عمران نیازی کی سوشل میڈیا ٹیم کی یلغار کا مقابلہ نہ کرسکے ۔
میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ اس وقت بھی ایم پی اے شعیب صدیقی محترمہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے وزیروں سے کہیں زیادہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا نہ صرف دفاع کررہا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی شعیب صدیقی کا محترمہ مریم نواز صاحبہ کے کاموں کے حوالے سے جو تشہیر ی کام ہے وہ پنجاب حکومت کی پوری سوشل میڈیا ٹیم سے کہیں زیادہ ہے ۔ میں حیران ہوں کہ اتنا با صلاحیت انسان ابھی تک پنجاب کابینہ سے باہرکیوں ہے ؟ سیاست میں کامیابی کی دو بنیادی ضرورتیں ہیں ۔ اول صلاحیتیں اور دوم وسائل ۔ صلاحیت ہو تو وسائل آ جاتے ہیں لیکن وسائل ہوں تو صلاحیتیں پیدا نہیں ہوتیں اس کیلئے آ پ کو اپنے با صلاحیت ساتھیوں کی ٹیم بنانا پڑتی ہے ۔ رہی بات پنجاب کی بیٹیو ں کی تو مریم نواز ہماری بہن بھی ہے اور بیٹی بھی ! گنڈا پور ایسے بد زبانوں کو لگام دینا ہمیں خوب آتا ہے ۔

تبصرے بند ہیں.