عمران خان کی اسرائیل نواز پالیسی

31

اسرائیلی بلاگ میں عمران خان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خارجہ پالیسی کے بارے میں نقطہ نظر کا حوالہ دیا گیا اور ان کے سابق سسرال گولڈ سمتھ خاندان سمیت بااثر اسرائیل نواز شخصیات کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات پر زور دیا گیا۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ عمران خان کا اپنی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ اور ان کے خاندان بالخصوص ان کے بہنوئی زیک گولڈ سمتھ کے ساتھ تعلق نے اسرائیل کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نواز اور یہودی حلقوں میں ایک نمایاں شخصیت زیک گولڈ سمتھ نے اس معاملے پر عمران خان کے خیالات کو متاثر کیا۔ مصنف نے دعویٰ کیا کہ یہ خاندانی تعلق عمران خان کو ایک منفرد نقطہ نظر فراہم کرتا ہے، جس سے وہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے موقف پر غور کر سکتے ہیں۔ تاریخی طور پر، پاکستان نے فلسطین کے حق میں ایک پختہ موقف برقرار رکھا ہے، جس کی جڑیں ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر اس کی شناخت اور عالمی مسلم برادری کے ساتھ اس کی وابستگی پر مبنی ہیں۔ عمران خان نے بھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کھلے عام اس موقف کی حمایت کی تھی اور اسرائیل کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور جب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک اسے معمول پر لانے کے خیال کو مسترد کر دیا تھا۔ بلاگ میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عمران خان سیاسی طور پر فعال رہیں۔ مصنف نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کے دور حکومت میں انہوں نے ایک عملی خارجہ پالیسی اپنائی جو اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نظر کو نئی شکل دینے میں اہم ثابت ہوسکتی ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں نے عمران خان کی رہائی کے لیے صیہونی لابیوں کی بڑھتی ہوئی کوششوں کا مشاہدہ کیا ہے اور وہ ٹائمز آف اسرائیل کے بلاگ کو ان کی سیاست میں واپسی کی حمایت کرنے کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے 2020 میں کہا تھا کہ ہمارا مؤقف پہلے دن سے ہی واضح ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان اسرائیل کی ریاست کو اس وقت تک قبول نہیں کر سکتا جب تک فلسطین کے عوام کو حقوق اور ریاست نہیں مل جاتی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف سے دستبرداری کے مترادف ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں میرا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے جب تک کہ کوئی منصفانہ تصفیہ نہ ہو جو فلسطینیوں کو مطمئن کرے۔ اگر خان نہیںتو پاکستان نہیں، پختون خوا سے لشکر لائوں گا پنجاب پر چڑھائی کرونگا عمران کو رہا کرا کر لے جاؤنگا، صحافی سب بے ایمان اور لفافہ ہیں، آئی ایس پی آر جھوٹ بولتی ہے، یہ وہ مکروہ الفاظ ہیں جو علی امین گنڈہ پور نے سنگجانی مویشی منڈی میں پی ٹی آئی کم اور خیبر پختونخوا کا جلسہ زیادہ تھا جہاں گنڈہ پور نے خوب تماشا لگایا، یہ 9 مئی نہیں بلکہ تقریر کے متن کے حوالے سے یہ ساڑھے نو مئی تھا جہاں مفرور مراد سعید کا بیان بھی دکھایا گیا۔ تقریر سن کر اور دیکھ کر افسوس ہوا کہ کیا ہم کسی BANANA STATE کے باسی ہیں، اس جماعت نے ٹھیکا لے لیا ہے بھارت اور اسرائیل کے اشارے پر پاکستان میں سکون نہ ہو۔ اسرائیل کے اخبارات میں خان کے حوالے سے جو مضامین شائع ہوئے کیا وہ ہمارے ملک کے کسی کرتا دھرتا نے نہیں پڑھے؟ مویشی منڈی میں کی گئی تقریر پر تو خود پی ٹی آئی کے وکلا گروپ کے ہاتھ پیر پھول گئے اور معافیا ں مانگتے رہے، وزیر اعلیٰ کی تقریر سے پی ٹی آئی کے سابقہ سپیکر کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ وہ تقریر کے دوران سٹیج پر بیٹھے تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ’’گنڈاسا‘‘ تقریر پر وہ کیا کہتے ہیں انکا جواب تھا میں نے تقریر نہیں سنی۔ گنڈہ پور کی گنڈہ سا تقریر جس میں ملک کے کسی ادارے اور شخص کو نہیں بخشا گیا، کہتے ہیں کہ قانون اپنا راستہ خود نکالتا ہے مگر ہم نے اداروںکو بدنام کرنا، تباہی مچانا، دہشت گردی کرنا معمول بنا رکھا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تاریخی طور پر کشیدہ تعلقات رہے ہیں جن میں عداوت پائی جاتی ہے۔ تاہم، عمران خان کی قیادت نے کامیابی کے ساتھ ایک نئے راستے کا آغاز کیا ہے، جس نے دونوں ممالک کے درمیان حرکیات کو نئی شکل دینے کا ایک بے مثال موقع پیش کیا ہے۔ بلاگ کے خالق کے مطابق ’’اس کالم کا مقصد عمران خان کی جانب سے اٹھائے گئے ترقی پسند اقدامات پر روشنی ڈالنا ہے جو پاک اسرائیل تعلقات میں مثبت تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کرنے میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔ وزیراعظم اقتصادی استحکام اور ترقی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں جو باہمی فائدہ مند تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اقتصادی تعاون کو فروغ دے کر عمران خان کا مقصد روزگار کے مواقع پیدا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر کے اور معاشی خوشحالی کو فروغ دے کر پاکستانیوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے۔ عمران خان کا قیام امن کی کوششوں پر زور دینا پاک اسرائیل تعلقات کی بہتری کا لازمی جزو ہے۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ امن ترقی کے لیے ایک شرط ہے، خان اسرائیل فلسطین تنازع سمیت خطے میں تنازعات کے پُرامن حل کے لیے فعال طور پر وکالت کرتے رہے ہیں۔ مکالمے اور مذاکرات کے ماحول کو فروغ دے کر خان کا مقصد علاقائی استحکام اور پُرامن بقائے باہمی کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینا ہے۔ عمران خان نے انسانی مقاصد کی حمایت اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حقیقی عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون اور شراکت داری کے ذریعے عمران خان پاکستان کے ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے زراعت، صحت کی دیکھ بھال اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں اسرائیل کی مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کا تعاون دوطرفہ تعلقات سے آگے بڑھ کر علاقائی استحکام کو فروغ دے سکتا ہے اور دونوں ممالک کو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹ سکتا ہے۔ عمران خان کی قیادت نے پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات میں بڑی تبدیلی کے امکانات پیدا کیے ہیں۔ سفارتی روابط، اقتصادی تعاون اور قیام امن کی کوششوں کی حمایت کر کے خان کا مقصد ایک سازگار ماحول پیدا کرنا ہے جو باہمی تفہیم اور تعاون کو فروغ دے۔ عمران خان کے وژن کو اپنانے سے پاکستان اور اسرائیل دونوں کو خطے میں مشترکہ خوشحالی اور پائیدار امن کے لیے مل کر کام کرنے کا موقع ملے گا۔‘‘

تبصرے بند ہیں.