عمران خان کے فوجی تحویل میں جانے کے امکانات

35

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے بہت کچھ واضح کر دیا یہی وجہ ہے کہ صورت حال کو بھانپتے ہوئے گذشتہ دنوں عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک درخواست دی کہ انھیں فوج کی تحویل میں جانے سے روکنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔ جس پر رجسٹرار نے اعتراض لگا کر اسے واپس کر دیا کہ کسی ایف آئی آر یا کیس کے بغیر عمومی طور پر ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے۔ یہ اچانک عمران خان کی جانب سے اس طرح کی درخواست کیوں دی گئی اور اس پر کیا فیصلہ ہو گا کیا عمران خان کو ریلیف مل جائے گا۔عمران خان کی سیاست کا ایک خاص حربہ یہ بھی ہے کہ خطرہ ابھی ساؤتھ افریقہ ہو گا لیکن اگر انھیں اس میں اپنے لئے رتی بھر بھی فائدہ نظر آئے تو وہ بیانیہ بنا لیں گے۔ گرفتاری سے پہلے ہر عدالت میں حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں بھی وہ ایک ہی بات کرتے تھے کہ ”جج صاحب حکومت کا مجھے گرفتار کر کے قتل کرنے کا پلان ہے میری جان کو خطرہ ہے لہٰذا مجھے ضمانت دی جائے“۔ ججز نے اس بیانیہ سے متاثر کیا ہونا تھا لیکن چونکہ سہولت کاری اپنے عروج پر تھی لہٰذا اس انتہائی فضول بے وزن بے معنی بیانیہ کو بھی وزن ملتا رہا لیکن خدائے پاک کا شکر ہے کہ ایک سال گذرنے کے بعد بھی وہ نہ صرف یہ کہ محفوظ و مامون ہیں بلکہ حکومت کی جانب سے ایسی کسی سازش کے ارتکاب کی کوشش تک نہیں کی گئی۔ اس دوران یہ بیانیہ بنانے کی کوشش ضرور کی گئی کہ خان صاحب کی صحت گر رہی ہے اور ان کو صحیح کھانا نہیں دیا جا رہا لیکن جب ہر روز کسی کیس کی سماعت کے دوران صحافی انھیں ہشاش بشاش دیکھتے تو یہ جھوٹا بیانیہ بھی نہیں چل سکا اور اب کہا جا رہا ہے کہ ان کو جیل میں سہولتیں نہیں دی جا رہیں لیکن شیر آیا شیر آیا کے مصداق اب عوام اس پر بھی یقین نہیں کر رہے لیکن ہماری رائے میں جیل مینوئل کے مطابق ایک سابق وزیر اعظم کو جو بھی سہولتیں ہیں وہ انھیں لازمی ملنی چاہئیں۔
بات ہو رہی تھی کہ بانی پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی کہ انھیں فوجی تحویل میں نہ دیا جائے۔ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اسے ہم جنرل فیض کی گرفتاری کا تسلسل یا زیادہ بہتر لفظ ہو گا کہ آفٹر شاکس کہہ سکتے ہیں اور ٹلیاں صرف تحریک انصاف میں ہی نہیں کھڑک رہیں بلکہ وہ مولانا جو تحریک انصاف کے ہم نوالہ ہم پیالہ بننے جا رہے تھے انھوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ حکومت فارم 45کی ہو یا47کی لیکن اب آ گئی ہے تو ٹھیک ہے۔ یہی آفٹر شاکس ہیں کہ جن کی وجہ سے کبھی محمود خان اچکزئی حکومت سے مذاکرات کا ڈول ڈالتے ہیں اورکبھی اسد قیصر سپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں جا کر ان سے ملاقات کرتے ہیں اور کبھی نواز شریف کی طرف مذاکرات کا بیان منسوب کیا جاتا ہے جس کی نواز لیگ کی جانب سے تردید آ جاتی ہے۔ جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد جس طرح ان کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے اور اس کی کوئی ایک خبر کسی خفیہ ذرائع سے یا کسی چڑیا والے بابے سے باہر نہیں آ رہی اس لئے کہ جو خبریں دیتے ہیں وہ کسی بھی خبر کو باہر نہیں آنے دینا چاہتے۔ یہ بات صورتحال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اسے بھانپ کر عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کر دی لیکن فی الحال فوج انھیں فوری طور پر 9مئی کے کیسز میں اپنی تحویل میں نہیں لے گی۔ اس کی کئی وجہ ہیں ایک تو جنرل فیض حمید کا ٹرائل ہے کہ فرض کر لیں کہ وہ بری ہو جاتے ہیں تو اس سے پہلے ہی اگر عمران خان کو فوج اپنی تحویل میں لے لیتی ہے تو پھر ان کی گرفتاری پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا لہٰذا جنرل فیض کا کیس جب تک کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتا اس وقت تک یہ کام موخر رہنے کے امکانات ہیں۔ اس لئے کہ اگر جنرل فیض کو 9مئی کے کیسز میں سزا ہو جاتی ہے تو پھریہ بات طے ہوجائے گی کہ فوج اگر اپنے ایک انتہائی سینئر افسر کو سزا دے سکتی ہے کہ جو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جیسے ہائی فائی رینک پر رہا ہے تو اسی جرم میں کسی سویلین کو سزا کیوں نہیں ہو سکتی۔ یہ تمام امکانات اور خدشات یقینا عمران خان کے ذہن میں بھی ہوں گے اور پھر جس طرح جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد حالات میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں تو انہی کے مد نظر یہ اپیل دائر ہوئی ہے۔
اب اگر اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کی جاتی ہے تو اس پر کیا فیصلہ آئے گا تو اس میں زیادہ امکان یہی ہے کہ فیصلہ عمران خان کے حق میں ہو گا اس لئے کہ تحریک انصاف کے جو دیگر کارکن اسی کیس میں گرفتار ہیں ان پر بھی سپریم کورٹ نے اسٹے دیا ہوا ہے لیکن یہ حکم امتناعی زیادہ دیر تک نہیں چلے گا جیسے ہی جنرل فیض کے کورٹ مارشل کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس کے بعد معاملات بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھیں گے اور یہ نہ بھولیں کہ جنرل فیض ہی گرفتار نہیں ہیں بلکہ کئی اور ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران بھی گرفتار ہیں اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل بھی انہی میں شامل ہیں۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کا جو سی سی ٹی وی کی وڈیوز کا مطالبہ ہے تو یہ صرف اور صرف ایک سیاسی بیانیہ ہے اس میں رتی بھر جان نہیں ہے اس لیے کہ جو وڈیوز سامنے ہیں اور پورے سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں ان میں اگر کوئی کور کمانڈر کی پتلون لہرا رہا ہے یا شہدا کے مجسمہ کو توڑ رہا ہے یا کور کمانڈر لاہور کے گھر کو آگ لگا کروہاں سے چیزیں لوٹ رہا ہے تو کیا سی سی ٹی وی وڈیوز میں وہ منظر بدل جائے گا یا سی سی ٹی وی وڈیوز میں تحریک انصاف کی پوری لیڈر شپ ہجوم کو اپنی قیادت میں فوجی املاک تک لے کر گئی ہے کیا وہ سب حقائق بدل جائیں گے تو یہ سب میڈیا کی حد تو بس ایک شوشہ ہے۔ عدالتوں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.