قومی معیشت میں بہتری آ رہی ہے، کلی معیشت کے اشاریے مثبت ہوتے چلے جا رہے ہیں، توازن تجارت ہو یا ادائیگیوں کا بہتری کی طرف گامزن نظر آ رہے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر بھی مناسب حد تک بھرے ہوئے ہیں، ٹیکس کی وصولیاں بھی جاری ہیں، وصولیوں کے ماہانہ اہداف بھی تسلی بخش انداز میں حاصل کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ایف بی آر کے اعصاب پر سوار ہیں، وصولیوں میں رتی برابر بھی کمی یا کمزوری قابل سرزنش ہو چکی ہے، معاشی حالات صرف بہتر ہو ہی نہیں رہے بلکہ بہتر ہوتے نظر بھی آ رہے ہیں، مہنگائی کا سونامی تباہی و بربادی کرنے کے بعد کہیں گم ہو چکا ہے، مہنگائی کم ہو رہی ہے لیکن وہ کم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے، بجلی و گیس کی بلند قیمتوں نے شہریوں عام صارفین کو ہی نہیں بلکہ کمرشل اور انڈسٹریل صارفین کو بھی پریشان بلکہ نڈھال کر دیا ہے، گھریلو بجٹ شدید عدم توازن کا شکار ہو چکے ہیں، قدر زر میں شدید گراوٹ کے بعد گو قدر زر کسی حد تک مستحکم ہو چکی ہے لیکن قوت خرید گر چکی ہے، ذرائع آمدنی گھٹتے چلے جا رہے ہیں، بیروزگاری بڑھتی چلی جا رہی ہے، غربت اور بدحالی روز افزوں ہے، شہریوں کی اکثریت اپنے حال سے پریشان اور دکھی ہے۔ حکمران، اشرافیہ اور پالیسی ساز نہ صرف عوامی مسائل سے نمٹنے اور بہتری لانے میں بہت زیادہ سنجیدہ نظر آتے ہیں بلکہ صلاحیت کا فقدان بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ سرکار کی رٹ یا حاکمیت دن بہ دن کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے، تاجر شٹرڈاؤن کر رہے ہیں، ہڑتالیں کر رہے ہیں کیونکہ وہ ٹیکس نہیں دینا چاہتے، وہ ٹیکس کا حجم اور طریقہ کار خود طے کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے ایک بات تو درست ہے کہ تاجر بجلی کے بلوں میں بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ 13/14 دیگر ٹیکس پہلے ہی ادا کر رہے ہیں، بجلی کا بل اخراجات کی مد میں آتا ہے لیکن بجلی کے بلوں میں انکم ٹیکس ایک مرتبہ نہیں، ایک ہی بل میں کئی مرتبہ شامل ہوتا ہے۔ ذرا ہمارے اہلکاروں کی اعلیٰ ذہانت دیکھیں اخراجات پر بھی انکم ٹیکس لاگو کرتے ہیں پھر تاجر ٹھیک ہی کر رہے ہیں کہ وہ ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں، ہمارے تاجر حضرات پہلے ہی 2023-24 میں جاری کردہ ”پوائنٹ آف سیل“کے نظام کے تحت ٹیکس دینے سے انکار کر چکے ہیں، وزیر خزانہ بھی بجٹ 2024-25 میں اس بات کا برملا اقرار کر چکے ہیں کہ ”یہ نظام مطلوبہ نتائج ظاہر کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اس لئے اب تاجر دوست نظام متعارف کرا رہے ہیں“۔ تاجر برادری 28 اگست 2024 کو ملک گیر شٹرڈاؤن ہڑتال کے ذریعے اس سکیم کو مسترد کرنے کے عزم صمیم کا اظہار کر چکے ہیں۔
دوسری ہمارے حکمران، پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندہ افراد اپنی مراعات سے دستبردار ہونے پر رضامند نظر نہیں آ رہے ہیں، شاہی سرکاری اخراجات، پروٹوکول، تنخواہیں، مراعات وغیرہم ویسے ہی چل رہے ہیں منظور نظر افراد کی بھاری مشاہیر پر تعیناتیاں ویسے ہی جاری ہیں جیسے کبھی پہلے ہوتی تھیں۔ آئی ایم ایف کی ہدایات پر محکموں میں رائٹ سائزنگ ہو رہی ہے، محکموں کا ادغام بھی ہو رہا ہے اور کئی ڈیپارٹمنٹ بند بھی کئے جا رہے ہیں لیکن معاملات قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔ سرکاری خرچ پر ذاتی تشہیر کا عمل بھی جاری ہے، دورے بھی جاری ہیں اور قرض پر قرض بھی لئے جا رہے ہیں۔ قرض لینے کی حکمت عملیاں بڑے اہتمام کے ساتھ طے کی جاتی ہیں، ان پر کامیابی سے عمل درآمد بھی ہوتا رہتا ہے لیکن قرضوں سے نمٹنے اور ان سے گلوخلاصی کرانے کے لئے کچھ بھی طے نہیں کیا جا رہا ہے۔ قرضوں کا بوجھ ہر لمحہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک یا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کتنا قرضہ لینا چاہتے ہیں اور وہ کس قدر دے رہے ہیں لیکن چین کے ساتھ ہمارے معاملات ڈھکے چھپے ہیں، سی پیک کے تحت ہم نے ان سے کیا طے کیا ہے؟ وہ ہمیں کیا دیں گے اور بدلے میں کیا لیں گے؟ ہم ان سے کیا لے چکے ہیں اور انہیں کیا کیا دے چکے ہیں یہ سب قومی راز ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق یہ خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ہم اگر چینی معاہدوں پر عمل درآمد نہ کر سکے تو معاملات سنگین بھی ہو سکتے ہیں ویسے ہم نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن/ گیس سپلائی کا معاہدہ کیا، ایران نے اپنے حصے کا کام مکمل کر دیا شاید اس پر 7/8 ارب ڈالر خرچ بھی ہو گئے لیکن ہم امریکی دباؤ پر اپنے حصے کا کام نہیں کر پا رہے ہیں، معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کے باعث ہمیں ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے جو ممالک امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت کر رہے ہیں، امریکہ نے ان کا کیا بگاڑ لیا ہے، ان میں ہندوستان بھی شامل ہے جو خطے میں امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر بھی ہے، ترکیہ بھی انہی ممالک میں شامل ہے، افغانستان پر امریکی پابندیوں نے کیا اثرات مرتب کئے ہیں وہ تین سال میں بغیر کسی غیرملکی امداد کے ایک خودمختار ملک کے طور پر مستحکم ہو رہا ہے۔ طالبان حکومت اپنی رٹ قائم کر چکی ہے یہ ہم ہی ہیں کہ 330 یا اس سے بھی زیادہ ارب ڈالر کی معیشت رکھنے، 70 ارب ڈالر سالانہ کی کمائی کرنے اور 100 ارب ڈالر خرچ کرنے والے ملک ہونے کے باوجود، دنیا کی عظیم الشان افواج اور ایٹمی دفاعی حصار رکھنے کے باوجود معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں، دہشت گردی کی زد میں ہیں، داخلی عدم استحکام میں الجھے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ خاصا الجھا ہوا ہے ناراض بلوچ اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہیں، کچھ ہتھیار بند بھی ہو چکے ہیں، دشمن ان کی صفوں میں سرایت کر چکا ہے وہ آزادی کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں، لسانی اور علاقائی نفرت پھیلانے کی منظم کاوشیں بھی ہو رہی ہیں، ہماری مسلح افواج دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے اور ہتھیار بند بلوچوں سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ وہ بڑی کامیابی سے پاکستان کی سالمیت کا تحفظ کر رہی ہے لیکن اصل محاذ پر خاموشی ہے، ناراض بلوچوں کے ساتھ بات چیت، سیاسی انگیج منٹ کا محاذ سرد ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاستدان بھی آگے بڑھیں ان سے بات چیت کریں، انہیں ہمدردی کے ساتھ سنیں، ان کی شکایات کا جائزہ لیں ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ بلوچ سردار اختر مینگل کا پارلیمنٹ پر عدم اعتماد انتہائی سنجیدہ فعل ہے اور ان کا پارلیمان سے مستعفی ہونا افسوسناک ہی نہیں بلکہ الارمنگ بھی ہے۔ پارلیمان ایک ایسا فورم ہے جہاں پاکستان کی تمام اکائیوں کے نمائندہ افراد ملتے ہیں، یہ ایک آئینی اور قومی و ریاستی ادارہ ہے جس نے پاکستان یا مملکت کی تمام اکائیوں کو اکٹھا باندھ کر رکھا ہوا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ پہاڑوں میں یا میدانوں میں بندوق کی نوک کے ذریعے حل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے، بندوق ریاست کے باغیوں اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والوں کے خلاف ضرور استعمال کی جانی چاہئے لیکن حقوق مانگنے والوں کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات ہونے چاہئیں اور یہ کام سیاستدانوں کا ہے انہیں اس کام میں جلدبازی اور ہوشیاری دکھانی چاہئے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.