فنون لطیفہ اور ادب کا انتہا پسندی کے خاتمے میں کردار؟

116

پاکستان کی بد قسمتی یہ بھی رہی ہے کہ یہاں ان فنون کو دیس نکالا دینے میں بھی ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی جو عین فطرت اور انسانی ضرورت ہی نہیں بلکہ معاشرے کو باہمی ربط میں رکھنے کے ساتھ ساتھ افراد معاشرہ میں محبت بھائی چارہ، تحمل، رواداری برداشت اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے میں بھی ممدو معاون تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ہاں فرسٹریشن ، انتہا پسندی فرقہ واریت اور دہشت گردی میں اسقدر اضافہ ہو کہ ہم زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں منانے سے بھی بدکنے لگے ہمارے پارک سنسنان ہوئے، سینما اور تھیٹر اجڑ گئے اور انسانی جمالیات بھی تعصب کی نذر ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ موسیقی، آرٹ، کلچر اور فنون لطیفہ ہر دور میں امن پسندی اور صلح جوئی کی علامت رہے ہیں۔ فنون لطیفہ نا صرف نوجوانوں کو بلکہ معاشرے کو بہتر کرنے اور امن پسندی کی طرف مائل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں موسیقی اور آرٹ پاکستان میں امن و امان کے حالات میں بہتری پیدا کرنے اور لوگوں کے درمیان بڑھتی خلیج کو پْر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ معاشرے کو انسانی معاشرہ بنانے کے لئے جہاں ان شعبوں سے منسلک افراد کا کردار اہم ہے وہیں حکومت کو اس ضمن میں سرپرستی کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ پچھلے کئی سال سے چلا آرہا ہے کہ اردو ریڈرشپ بہت زیادہ کم ہوگئی ہے۔ بچوں کے اردو ناول نایاب ہوتے جا رہے ہیں ۔ پیسے والوں نے اپنے بچے انگریزی سکولوں میں داخل کرا دیئے اور نئی نسل اپنے ہیروز، تاریخ اور ادب سے مکمل طور پر نا آشنا ہوتی جا رہی ہے،جب کہ اردو سکولوں میں پڑھنے والوں میں تو کتابیں خریدنے کی ہمت ہی نہیں ہے۔المیہ دیکھیے ٹیکسٹ بکس، گائیڈز، جادو عملیات اور توہمات وغیرہ سے متعلق مواد والی اور سیاست دانوں کے اسکینڈلز والی کتابیں زیادہ بکتی ہیں جس سے معاشرے کے رجحان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تعلیمی نصاب میں ریڈنگ کے مضمون کے ساتھ ادب کی ترویج بھی بہت ضروری ہے ۔ جبکہ بچوں کے لیے غیر نصابی علمی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیے جانے کے ساتھ لائبریریوںکا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ بچوں میں علمی بحث و مباحثوں سے ایک توبچوں کی ذہنی نشو نما میں اضافہ ہو گا دوسرا خوف کی فضا سے نجات ملے گی ۔حکومت کو اپنی ترجیحات کو تبدیل کرتے ہوئے معاشرے کو نارمل معاشرہ بنانے کے لئے فنون لطیفہ ادب اور ادیب کے فروغ اور ترویج کا اہتمام ہر سطح پر کرنا ہوگا یہی ایک حل ہے کہ ہم دہشت گردی ،انتہا پسندی اور فرقہ واریت سے باہر نکل سکتے ہیں۔ ورنہ ایک خاص ’’مائنڈ سیٹ‘‘ کی وجہ سے جینا حرام تو ہے ہی مزید مشکل ہو جائے گا اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لئے بھی فنون لطیفہ کی ترویج بہت ضروری ہے۔

حکومت اگر ادب سے جڑے افراد اور فنون لطیفہ کی تمام اقسام کی سر پرستی کرے تو ہم پھر سے خوشیوں کی تقریبات منعقد کر سکتے ہیں معاشروں کوزندہ رکھنے، انتہا پسندانہ خیالات اور سوچوں سے بچانے کے لئے مثبت بیانئے کے ساتھ ملک بھر میں تفریح سرگرمیوں کا فروغ انتہائی ضروری ہوتا ہے، میلے ٹھیلے،کلچرل سر گرمیاں اور اسی طرح کی تقریبات کا انعقاد ہی انتہا پسندانہ سوچوں کو بدلنے میں کافی معاون ہوسکتی ہیں۔ جبکہ سکولوں اور کالجوں میںغیر نصابی سرگرمیاں بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو نما کے ساتھ ان کے اندر مقابلے کی فضا اور حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔ جس کی طرفٖ ریاست کو فوری توجہ دینی چاہیے کیونکہ آجکل تعلیمی اداروں میں اسطرح کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی بنا پر بچے منفی سوچوں کا شکار ہورہے ہیں۔
ہم حکومت سے یہ بھی اپیل کریں گے کہ سرکاری و نجی سکولوں میں لائبریریوں کا احیا کیا جائے تاکہ طلبہ موبائل کی جگہ کتابوں سے دوستی لگائیں ۔یہاں اچھا ادب تخلیق اسی وقت ہو گا جب کتابیں فروخت اور پڑھی جائیں گی لیکن پھر بھی دم غنیمت ہے کہ ہمارے ہاں اچھے لکھاری نہ صرف موجود ہیں بلکہ بنا کسی حکومتی سرپرستی میں اچھا ادب تخلیق بھی کر رہے ہیں ایسے ہی ناموں میں ایک نام پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کا بھی ہے جنہوں نے اردو ناول کے کئی نئے رخ اور جہتیںمتعارف کرائی ہیں۔انھوں نے اپنے ناول میں نئی صدی کانیارنگ اورنیا آہنگ پیش کرکے اپنی شخصیت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔وہ شاعر،نقاد،افسانہ نگار،اور ناول نگار ہیں۔پنجابی ادب کے ساتھ ساتھ اردو ادب پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔’ ان کی نئی کتاب’زندگی ایک ناراض متن‘‘ ان کے قلم سے تخلیق ہونے والا ایسا فن پارہ ہے جس نے اردو ادب میں ان کو بہ طور ناول نگار متعارف کرایا ہے۔وہ اس ناول میں ایک تعلیمی ادارے کے اندر مختلف بیک گراؤنڈ رکھنے والے اساتذہ کے درمیان سیاسی، سماجی اور جنسی تعلق کی بنیاد کرتی ہوئی زندگی کا منظر نامہ پیش کرتی ہیں، اس ناول میں روایتی کہانی کو بیان کرنے والے واقعات ہیں، نہ نمائندہ کردار ہیں کہ ان کی شخصیت کو بیان کیا گیا ہو اور بہت کچھ بغیر تفصیلات کے، قاری کی قوت متخیلہ پر چھوڑ دیا گیا ہے، ہمارے دوست معروف شاعر ادیب اور ایجوکیشنسٹ ڈاکٹر جمیل احمدعدیل ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کے ادبی فن پارے بارے لکھتے ہیں کہ ’’یہ معروضی موقف ہے کہ ’’زندگی ایک ناراض متن‘‘آغازوانجام کی نصابی تعریف پرپورانہیں اترتا۔کسی کردارکومیکانکی ارتقا Reduce نہیں کیاگیا۔ کسی ذیلی ضمنی کہانی میں مکمل ہونے کاعیب نہیں رکھا گیا۔ شاہدہ دلاورشاہ کایہ ناول قضیوں کوتسلسل سے پیش کرتے ہوئے مصنوعی، سطحی، عامیانہ، اضافی حدبندیوں کو جزئیات کے ساتھ موضوع تو بناتا ہے کہ ان عناصرکی موجودگی سے انکارممکن نہیں لیکن عمل کوان کے اندر مقید نہیں کرتا۔’’زندگی ایک ناراض متن‘‘اکیسویں صدی کے ان تھیوریزکابیانیہ ہے جن کی مددسے زندگی اوراس کی پیچیدگیوں کوفکشن کی مددسے پیش کر کے نئے اسلوب کومتعارف کرایا۔ان میں ایک میٹافکشن بھی ہے جو نثرکاایک غیرروایتی بیانیہ ہے۔ جبکہ ممتاز شاعر و ادیب ڈاکٹرغافرشہزاد جو خود بہترین تخلیق کار ہیں وہ لکھتے ہیں ’’جب تک زندگی اوراس کے کردارسیدھے سبھائو کے تھے،ناول کے اندرکہانی بھی سادہ بیانیے کی تھی اورپہلی خواندگی میں سمجھ آجاتی تھی،ناول کو دوبارہ پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی جیسے پیچیدہ ہوتی گئی،اسے سمجھنے کے لیے نئے نئے نظریات متعارف ہوتے رہے۔‘‘ اس ناول میں مرد اور عورت کے درمیان بننے والے تعلقات،مرد اور عورت کی فطری و ذہنی اور نفسیاتی کشمکش کو مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے جس سے یہ کردار حقیقی زندگی کے جیتے جاگتے کردار لگتے ہیں۔ان کے اندر منافقت بھی ہے اور بے وفائی بھی مگر وفادار ایسے کہ محبت کی خاطر اپنے رشتوں اور خاندان کو بھی قربان کر دیں۔یہ ناول ہماری دفتری زندگی کی بہترین مثال ہے جس میں کولیگز کے درمیان بننے والے تعلقات اور ان کے درمیان منافقت و قربت کی منظرکشی کی گئی ہے۔ڈاکٹرشاہد ہ دلاورشاہ کایہ ناول’’زندگی ایک ناراض متن‘‘ عہد حاضر میں تخلیق کئے جانے والے ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.