ہمارے ہاں جب کوئی کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تو کوئی اس کے ساتھ چلنا تو بہت دور کی بات، کوئی ایک قدم بھی نہیں چلتا۔ اگر کھیل کے حوالے سے بات کروں تو پھر میرے سامنے ایک نہیں لاکھوں مثالیں ایسی ہیں کہ وہ کھلاڑی جو خود اپنی محنت کے بل بوتے پر اوپر آئے تو سب نے کریڈٹ لینے شروع کر دیئے۔ ارشد ندیم تو ایک ایسی مثال ہے جو آپ سب کے سامنے ہے۔ آج پورا ملک پوری دنیا میں ایک ہی نام گونج رہا ہے اور وہ نام ہے ارشد ندیم کا۔ آج ہر کوئی بول رہا ہے، کہہ رہا ہے آج اس کے خاندان اور دوستوں تک کو عزت بخشی جا رہی ہے اور یہ عزت ارشد کی محنت، اس کی خواہش کی تکمیل کو ملی۔ اگر یہ عزت سے نوازا گیا ہے تو وہ میرے مولا کا کرم ہے اور جب وہ ہاتھ پکڑتا ہے تو پھر پوری دنیا میں میرے رب کا ذکر پہلے آتا ہے کہ اس نے جب چاہا بندہ بشر کو نواز دیا… عطاء کر دیا… واہ میرے مولا جب تو نوازنے پر آتا ہے تو پھر ارشد ندیم جیسے ہزاروں میں سے ایک کو مثال بھی بنا دیتا ہے۔
آج ہر کوئی ارشد ندیم پر بات کر رہا ہے۔ ارشد ندیم کو لکھ رہا ہے۔ آج اس پر انعامات کی بارش ہو رہی ہے۔ آج حکومت سے لے کر ہر ادارہ کوئی گھر تو کوئی گاڑی تو کوئی اس پر کروڑوں روپے نچھاور کر رہا ہے کہ وہ وقت ہے ارشد ندیم کا جو اللہ تعالیٰ نے اس کی محنت کا پھل عطا کیا ہے۔ آج میں ارشد ندیم پر کچھ نہیں کہوں گا کہ ہر کوئی اس پر بات کر رہا ہے۔ اس پر لکھ رہا ہے۔ اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ گزشتہ روز ٹریڈ اڈسٹری کے رہنما اطہر ہمایوں ارشد ندیم پر بات کر رہے تھے۔ میں ان سے یہ کہہ رہا تھا کہ یہ تو ایک ارشد ندیم ہے اس کو کسی نے تلاش نہیں کیا۔ وہ خود اپنی تلاش کرتے کرتے پیرس اولمپکس میں پہنچ گیا اور پھر اس نے ارشد ندیم کو تلاش کرکے یہ یابت کر دیا کہ یہ دھرتی عظیم سپوتوں کو جنم دیتی ہے اس دھرتی نے ہمیں کرکٹ، ہاکی اور سکواش میں جتنے نامور کھلاڑی دیئے۔ وہ اب اپنے بل بوتے پر گھروں سے بین الاقوامی مقابلوں میں پہنچے وہ کل بھی نایاب تھے وہ آج بھی نایاب ہیں۔ میں یہ بات دعوے کے ساتھ تمام ریکارڈز سامنے رکھ کر بات کرنے کو تیار ہوں کہ پاکستان سپورٹس بورڈ سے لے کر صوبائی بورڈز تک تمام سپورٹس ایسوسی ایشن سے لے کر اداروں کی سپورٹس تک کوئی ادارہ یہ ثابت کر دے کہ اس نے فلاں کھلاڑی کو دریافت کیا، فلاں کو کسی کوچنگ سکیم، کسی کیمپ سے نکالا ہو، کون خوش قسمت کھلاڑی ہے جو یہ کہے کہ اس کو یہاں تک لانے میں اس کا کردار ہے البتہ یہ ضرور ہوا کہ کھلاڑی جب تک کرکٹ سے کسی نہ کسی طریقے سے وہ بھی کرکٹ یا ہاکی کی بات کروں تو اس کو مختلف کوچنگ سکیموں پر ضرور محنت کی اور جب وہ اوپر آنے کے قابل ہوا تو ہم نے اس کے اوپر سفارشی اور پرچی کے سہارے آنے حوالے کھلاڑیوں کو دعوت دی اور وہ جو اچھے تھے ان کو ہم نے اپنے ہاتھوں برباد کیا۔
چلیں آپ آج کی بات کر لیں۔ ارشد ندیم کی مثال لے لیں کہ جب وہ میڈیا پر ایک کھلاڑی کے طور پر ابھرا اور آج ٹی وی کا کیمرہ اس کے گھر بنے جم کی جو اس نے سیمنٹ، لوہے کی سلاخوں کے ساتھ بنایا اس کے ابتدائی دنوں کی گائوں میں ٹریننگ اور پھر بہت محنت کرنے کے بعد وہ ذرا بڑا ہوا تو اس کے پاس جیولین نہیں تھی۔ ملک ریاض جیسے بڑے آئی کون نے جیولین خرید کر اس کو دینے کا اعلان ہوا جو اسے نہیں ملی۔ اس وقت سپورٹس اتھارٹی والے اداروں کو خبر نہیں تھی کہ ارشد ندیم آنے والے وقتوں میں بڑا اثاثہ ثابت ہوگا۔ اس کو فوراً پکڑ لیا جائے، اس کے کوچ کی بڑی محنت اور سفارش کے بعد واپڈا میں اس کو سپورٹس کی بنیاد پر لائن مین کی نوکری دلا دی کہ اس کی غربت کے دن دور ہوں۔ آج جب خدا تعالیٰ نے اس کی محنت کا پھل دیا تو اب کئی لوگ سامنے آ رہے ہیں۔ بحث کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں ہر کھیل میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ آپ ایک کیا کئی میڈل پاکستان لا سکتے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے تمام سپورٹس ادارے سیاسی جماعتوں کے حوالے کر رکھے ہیں۔ کرکٹ، سکواش، ہاکی اور پاکستان سپورٹس بورڈ سے تمام صوبائی سپورٹس بورڈ کے سربراہ سیاسی لوگوں سے بھرے پڑے ہیں اور ان میں نوے فیصد ایسے سربراہ ہیں جو کھیلوے کے حوالے سے یہ بھی شاید نہیں جانتے کہ سپورٹس کس بلا کا نام ہے۔
ہمارے ساتھ تو یہ بھی ہوا کہ گروپنگ کے چکر میں ہم نے خاص کر کرکٹ اور ہاکی میں بڑے بڑے کھلاڑیوں کو کس طرح تباہ و برباد کیا اور ایسے ہزاروں کھلاڑی جو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے ہزاروں کھلاڑی آزمانے سے پہلے ہی گھر واپس بھجوا دیئے گئے۔ ایسے کھلاڑی جن کو کھیل کے دوران رخصتی کا پروانہ دے کر میدان سے باہر نکال دیا گیا۔ ہزاروں کھلاڑی گرائونڈ پریکٹس تک محدود رہے ہزاروں کھلاڑیوں کو نوازنے کے لیے تجربہ کار کھلاڑیوں کی قربانی دی گئی۔ ارشد ندیم کی شکل میں اس قوم کو جتنی بڑی خوشی ملی اس سے بڑھ کر ان کھلاڑیوں کے دکھ کون جانے گا جو سیاست کا شکار کر دیئے گئے۔ گزشتہ دو تین دن سے یوتھیوں نے عمران خان کے ساتھ ارشد ندیم کی تصویر شیئر کی ہے جس سے یہ بات کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان کو کھیل سے کتنی محبت ہے اگر محبت کی بات کرتے ہیں تو یہ بانی پی پی آئی ہی تھا جس نے انداروں کے اندر کھیل بند کر دیئے تھے۔ اس نے تو اپنے دور اقتدار میں کھلاڑیوں کو بھوک کاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ میں یہ بات آن ریکارڈ کہہ رہا ہوں کہ عمران کو اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے دور میں کرکٹ بورڈ کے دروازے ان کھلاڑیوں پر بند کر دیئے گئے تھے جو اداروں کے حوالے سے قومی ہیرو تھے تو آج اس کے حمایتی کس منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے لیڈر کو کھیلوں سے بہت پیار تھا۔
اور آخری بات…!
ارشد ندیم نہیں جیتا، اس کی غربت بھی ساتھ جیتی ہے، اس کا وہ جذبہ بھی جیتا ہے، جو اسی جنوری میں اسے دربدر لئے پھرتا تھا کہ کہیں سے چند لاکھ مل سکیں،جس سے وہ جیولین یعنی وہ لکڑی خرید سکے،جو دنیا کے کھلاڑیوں کے پاس وافر پڑی رہتی ہیں۔ وہ جب جیولین پھینکنے نکلتا تھا، تو گھر سے خوراک کے نام پر ماں کے ہاتھ کا پکا پراٹھا کھا کے نکلتا تھا اور باہر کھیل کے میدان کے نام پر زمین کا ایک سادہ قطعہ اس کا منتظر ہوتا تھا، اس کے جیتنے کے ساتھ ہی ماں کا پراٹھا اور سادہ زمیں کا قطعہ بھی جیت گیا۔ اس کے ساتھ لاہور سے دور جنوبی پنجاب کا وہ شہر میاں چنوں بھی جیت گیا، جس کی گلیاں سادہ، جہاں کے لوگ عام سے اور جہاں کا تذکرہ صرف خوشی کی برفی کے ذیل میں ہوا کرتا تھا، آج ارشد کی جیت نے میاں چنوں کو اک نئی اور عالمی پہچان جیت کر دے دی ہے۔
ارشد ندیم کے ساتھ ہی وہ غریب باپ بھی جیت گیا، جو اپنے بچے کے کھیل پر حیران ہوا کرتا تھا کہ ایک لاٹھی کو زور سے دور پھینکنا بھی بھلا کوئی کھیل ہو سکتا ہے؟ کہ کھیل تو کرکٹ ہوا کرتا ہے، اس کھیل کو بھلا جانتا اور مانتا ہی کون ہے؟ آج لیکن اسی غیر معروف کھیل مگر ناقابل تسخیر جذبے کے ذریعے سے اس کا بیٹا کل جگ میں مشہور ہو گیا ہے، ہیرو ہی نہیں سپر ہیرو بن گیا ہے، ارشد کی جیت کے ساتھ اس کا شہر، اس کا ملک اور اس کا سادہ سا گھر بھی جیت گیا ہے۔
میں نے عربی کمنٹیٹر کو سنا، ارشد کے جیولین سنبھالنے ،ہاتھوں پر تولنے اور پھینکنے کیساتھ ساتھ جس کا رواں تبصرہ جاری تھا مگر جونہی ارشد نے کرشمہ کیا، وہ سب بھول کے اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگا۔
میں نے انڈینز کو سنا جو کہتے تھے، ہمارا نیرج چوپڑا کم نہ پڑا تھا، ارشد ندیم مگر آج آئوٹ آف سلیبس آگیا تھا۔ اس کا مقابلہ کون کر سکتا تھا کہ وہ تو حساب کتاب اور سارے نصاب سے باہر تھا، اس نے گولڈ ہی نہیں جیتا اپنے زور بازو اور غرور غربت سے جیولین تھرو کا سو سالہ ریکارڈ بھی تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔
یہ دن کسی اور کاکیسے ہو سکتا تھا کہ یہ دن،صرف ارشد ندیم کا دن تھا۔ کروڑوں کے اخراجات کرکے اہتمام سے میدان میں اترنے والوں کے مقابل ایک نوجوان کی غربت و عسرت کا دن۔ یہ دن ایک چھوٹے شہر کے نظر انداز کردہ نوجوان کے پیرس جیسے خوشبووں کے شہر میں سجدہ کر دکھانے کا دن تھا۔
ارشد ندیم! تینوں رب دیاں رکھاں۔
ارشد ندیم! تم نے ساری دنیا میں سجدے کا منظر دکھا دیا،خدا تمہیں ہر منظر میں دکھائے۔
ارشد ندیم! تم اس قبیلے کا فخر ہو… کہ
قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنی عامر میں…
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
تبصرے بند ہیں.