انگریز کی اصول پسندی انصاف اور انسانیت کے احترام کے حوالے سے تاریخ میں محفوظ واقعات فقط قصے کہانیاں ہیں جو ترقی پذیر ملکوں میں مختلف نصابوں میں عرصہ دراز تک پڑھائے جاتے رہے حقائق اس کے برعکس ہیں۔ خصوصاً جہاں معاملہ مسلمانوں کا آیا انگریز کا مکر و فریب اور تعصب کھل کر سامنے آیا کئی سو برس کی تاریخ ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تعصب تشدد کی لہر کی شکل میں درجنوں مرتبہ سامنے آیا، دو ہفتے قبل انگریز کا یہ تعصب نئے رنگ میں سامنے آیا ہے انگریزوں نے یہ تعصب اپنی نئی نسل کو منتقل کیا ہے جن پر سائنسی ترقی، تعلیم اور بدلتے وقت کے بدلتے تقاضے کوئی مثبت اثر مرتب نہیں کر سکے۔
برطانیہ کے مختلف شہروں میں مسلمانوں پر حملے ہوئے انکی املاک کو نذر آتش کیا گیا، راہ چلتے افراد کو گھیر کر زدو کوب کیا گیا مختلف سٹور اور پٹرول پمپس پر کھڑی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی، نوجوان مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو خاص طور پر گھیر گھیر کر مارا گیا، مسلمانوں کی دکانوں کا سامان لوٹ لیا گیا۔ مختلف ذرائع سے موصول ہونیوالی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان پُر تشدر کارروائیوں میں غنڈے نقاب پوشوں کے علاوہ ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے طرز عمل سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں پہچان لیے جانے کا کوئی خوف نہیں۔ ان گورے بلوائیوں میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ کم عمر سکول کے طلبا بھی شریک تھے جو دکانیں لوٹ رہے تھے اور باقی ساز و سامان کو آگ لگا رہے تھے کچھ لوگ پیٹرول کے گیلن اور بوتلیں بھر کر لائے اور سامان پر چھڑک کر آگ لگا دیتے، خوف و ہراس پھیلنے پر جب مسلمانوں نے اپنی دکانیں بند کرنے کی کوشش کی تو بلوائیوں کے گروہ آڑے آئے۔ انہوں نے دکانوں کے شٹر اٹھائے اور اپنی مذموم کارروائیاں کیں۔
شرپسندوں اور تخریب کاروں کے گروہ مسلمانوں کو برطانیہ سے نکل جانے کا کہتے رہے۔ انہوں نے متعدد افراد سے یہ کہا کہ برطانیہ انکا ہے مسلمانوں کا نہیں۔ یہ ہنگامے ساؤتھ پورٹ سے شروع ہوئے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے بلفاسٹ، برمنگھم، لیور پول، مانچسٹر اور لندن کے مضافات تک پھیل گئے۔ برطانوی پولیس حرکت میں تو آئی لیکن انکے متحرک ہونے تک بہت نقصان ہو چکا۔ تشدد، گھیراؤ جلاؤ کے واقعات میں ملوث قریباً چار سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ سی سی ٹی وی کی فوٹیج کی مدد سے ان تخریبی کارروائیوں میں شریک افراد کا سراغ لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔ پُرتشدد کارروائیوں کا آغاز انتہائی منظم انداز میں ہوا اور انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کے ذریعے لوگوں کو اشتعال دلا کر باہر نکالنے کیلئے پیغامات جاری کیے جاتے رہے۔
واقعات کا آغاز ساؤتھ پورٹ میں پیش آنے والے ایک واقعے سے ہوا جہاں ایک تنگ گلی میں واقع کمیونٹی سنٹر میں ایک حملہ آور نے چاقو کے وار کر کے تین بچیوں کو قتل کر دیا۔ پولیس نے حملہ آور کو گرفتار تو کر لیا لیکن برطانوی قانون کے مطابق اسکی کم عمری کے سبب اسکی شناخت ظاہر نہ کی، تخریب کاروں نے انٹرنیٹ کے ذریعے یہ جھوٹ پھیلا دیا کہ ملزم ایک مسلمان ہے اور اسکا تعلق شام سے ہے۔ بعد کی تحقیقات سے یہ بات جھوٹ ثابت ہوئی لیکن اس جھوٹ کا سہارا لیکر مسلمانوں کے کاروباری مراکز اور انکی رہائش گاہوں پر حملے شروع کر دیئے جو ایک ہفتہ تک جاری رہے۔ آزادی اظہار کا پرچار کرنے والا برطانوی میڈیا گونگا بنا رہا، کسی قسم کے اعداد و شمار جاری کرنے سے گریز کیا جاتا رہا۔ آج تک ان ہنگاموں میں زخمی ہونے والوں کی درست تعداد کا کسی کو علم نہیں نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ پُر تشدد کارروائیوں میں کتنے افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بننے والے شہروں اور ان میں مسلمان آبادیوں میں خوف کی فضا ہے۔ مکینوں نے اپنے بچوں کو سکول کالج بھیجنے کے بجائے بہتر جانا کہ انہیں اپنے گھروں تک محدود رکھا جائے تا وقتیکہ حالات پوری طرح کنٹرول میں نہیں آتے اور ان کارروائیوں میں ملوث افراد اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتے، تخریبی کارروائیوں میں گرفتار افراد کا ہنگامی بنیادوں پر ٹرائل کر کے انہیں سزائیں سنائی جا رہی ہیں لیکن کم سن تخریب کار قانون میں لچک کا فائدہ حاصل کر لیں گے اور پھر ایک فاتح کے انداز میں دندناتے پھریں گے جو مسلمان کمیونٹی کیلئے باعث تکلیف ہو گا۔
برطانیہ جیسے مہذب سمجھے جانے والے ملک میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے واقعات کا تسلسل ہے۔ برطانوی نوجوان نسل اس خام خیالی میں گم ہے کہ اگر ایشیائی باشندوں کو برطانیہ سے نکال دیا جائے تو خالی ہونے والی لاکھوں ملازمتیں انہیں مل جائیں گی۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ میڈیکل، آئی ٹی، انجینئرنگ اور شعبہ تعلیم سے وابستہ پوسٹوں پر ایشیائی باشندے کام کر رہے ہیں، ان میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد جب برطانیہ کی تعمیر نو کا مرحلہ آیا تو اسکے تباہ حال کارخانوں اور بالخصوص ٹیکسٹائل اور ہیوی انڈسٹری کو چلانے کا سہرا ایشیائی باشندوں اور مسلمانوں کے سر ہے۔ ایک لمحے کیلئے اگر فرض کر لیا جائے کہ ایشیائی باشندے جن میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سری لنکن، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ شامل ہیں، نکل جائیں تو برطانیہ میں زندگی منجمد ہو سکتی ہے۔ برطانوی باشندے ان جگہوں کو پُر کرنے کیلئے اس تعداد میں دستیاب ہی نہ ہونگے۔ تحقیق سے ایک اور افسوس ناک بات سامنے آئی کہ ان ہنگاموں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے پیچھے یہودی لابی تھی جسے سب سے زیادہ تکلیف اس بات کی تھی کہ فلسطین میں انکی بہیمانہ کارروائیوں کے خلاف مسلمانوں نے دنیا بھر میں مؤثر انداز میں آواز اٹھائی، فلسطینیوں کے حق میں زبردست مظاہرے ہوئے جن میں اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور انکے حواریوں پر زبردست تنقید کی گئی۔ یہ مظاہرے اس قدر مؤثر ثابت ہوئے کہ وہ ممالک جو اسرائیل کے حامی تھے انکے شہروں میں بھی احتجاجی جلوس نکلے اور حکومتوں پر زور دیا گیا کہ فوری طور پر اسرائیل کو جنگ بندی اور مقبوضہ علاقے خالی کرنے کا کہا جائے، مختلف ممالک میں انکی پارلیمنٹ میں قراردادیں پیش ہوئیں جو کثرت رائے سے منظور کی گئیں۔ یوں اسرائیل کا مکروہ چہرہ دنیا بھر کے سامنے لایا گیا اسکے ساتھ ساتھ اسرائیل کی حمایت میں امریکہ اور برطانیہ کا کردار بھی واضح ہوا۔ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہودی کس قدر بوکھلا گئے ہیں، انہیں اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کیلئے کوئی جگہ نہیں مل رہی۔
تبصرے بند ہیں.