تریپن سال قبل پاکستان سے آزادی پانے والے ملک بنگلہ دیش میں اچانک بڑی بغاوت نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ شاید چند دنوں میں کسی کو بھی اتنی بڑی تبدیلی کی توقع نہ تھی۔ بنگلہ دیش کے باسیوں نے اپنی چہیتی وزیراعظم شیخ حسینہ کے آمرانہ اور جابرانہ نظام حکومت سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے باپ کے قتل کے بعد بنگلہ دیش پر بھرپور طاقت سے حکومت کی۔ شیخ حسینہ نے تقریباً 20 سالہ دور اقتدار میں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو سزائے موت جیسی سخت سزائیں دیں۔ 1971 کی جنگ کے دوران جنگی جرائم کی آڑ میں شیخ حسینہ نے گذشہ ایک دہائی میں حزب اختلاف کے پانچ اہم رہنماؤں کو پھانسی لگوائی۔ جس میں جماعت اسلامی کے اپوزیشن لیڈر علی احسن محمد مجاہد،جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل عبدالقادر ملا، قمر الزمان اور مولانا مطیع الرحمان کو پھانسی دی گئی۔اس کے علاوہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے رہنما اور پانچویں بار منتخب ہونے والے پارلیمنٹ کے رکن صلاح الدین قادر چودھری کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ مزید برآں 2004 میں حسینہ واجد کی ریلی پر حملے کے بعد بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے خلاف بڑا سخت ایکشن لیا گیا۔سینکڑوں سیاسی حریفوں کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ دیگر سخت سزائیں دی گئیں۔ شیخ حسینہ پر طاقت کا نشہ سوار ہو چکا تھا۔ چنانچہ شیخ حسینہ نے سوچے سمجھے بغیر اپنے تمام مخالفین کا قلح قمع کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ انسانی حقوق کی پامالیوں جیسے سنگین الزامات کی بھی حسینہ واجد نے پرواہ نہ کی۔ رواں برس جنوری میں ہونے والے الیکشن بھی متنازع تھے کیونکہ اپوزیشن نے الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ بین الاقوامی برادری نے انتخابات پر نہ صرف سوالات اٹھائے بلکہ بنگلہ دیش کے انتخابات کوغیر شفاف قرار دیا۔ 300 میں سے 225 سیٹیں جیتنے کے باوجود حسینہ واجد اپنی قدر کھو بیٹھی تھیں۔ تشدد اوراحتجاج کے سائے تلے ہونیوالے انتخابات میں شیخ حسینہ کا اثرو رسوخ ڈگمگا گیا لیکن حسینہ واجد کی غلط پالیسیاں جاری رہیں۔
تاہم ، جون 2024 میں ہائیکورٹ کی جانب سے کوٹہ سسٹم کی بحالی کے بعد شروع ہونیوالی طلبا کی حکومت کیخلاف تحریک نے انقلاب برپا کر دیا۔ بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتیں 50 فیصد کوٹہ سسٹم کے تحت دی جاتی ہیں۔ جن میں 30 فیصد کوٹہ1971 کے فریڈم فائٹرز کیلئے مختص تھا۔ بنگلہ دیشی طلبا کیلئے اس تقسیم کو مٹانا ناگریز ہو گیا تھا۔وہ اپنا حق چھیننے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے۔ 17 جولائی سے شروع ہونیوالی تحریک بظاہر طلبا نے سول سروس میں کوٹہ سسٹم کے خلاف چلائی جو دیکھتے ہی دیکھتے حکومت مخالف تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔ مگر یہ تحریک صرف کوٹہ سسٹم کیخلاف نہیں بلکہ اس بہیمانہ نظام کیخلاف تھی جس میں بنگلہ دیش کی عوام خاص طور پر جوان طبقہ پس رہا تھا۔ چند دن پورا ملک انتشار کا شکار رہا۔ انٹرنیٹ سروسز بند رہیں اور تقریباً 400 کے قریب ہلاکتیں جبکہ سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے۔ حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر نکل گئے۔ عوام کا غم و غصہ آسمان کو چھونے لگا اور ڈھاکہ میدان جنگ بن گیا۔ یوں حکومت کی جانب سے 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے لڑنے والوں کے بچوں اور رشتے داروں کیلئے سول سروسز کے کوٹہ میں مزید اضافے کے خلاف تحریک پر تشدد مظاہروں میں تبدیل ہو گئی، جس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں عوام نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب مارچ کرنا شروع کر دیا، تاہم رپورٹس کے مطابق طلباء کی تحریک کو مزید بڑھاوا دینے میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا اور طلباء کے خدشات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وگرنہ اپوزیشن جماعتوں کو حسینہ واجد کے جبر سے چھٹکارا نہ مل پاتا۔طلبا نے تاریخ رقم کرتے ہوئے چند دنوں میں بنگلہ دیش پر طویل حکمرانی کرنے والی ونڈر ویمن حسینہ واجد کی لنکا ڈھا دی۔
شیخ حسینہ کو آرمی چیف نے اقتدار سے الگ کر دیا۔ حسینہ واجد کو دباؤ کے باعث مستعفی ہونا پڑا۔ عوام کے غضب سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے شیخ حسینہ سرحد پار بھارت جا پہنچی جبکہ عوام وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہو گئی اور مال غنیمت سمجھ کر جس کے ہاتھ جو لگا وہ لوٹ لیا۔ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے والے طلبا نے فوج کے تحت عبوری حکومت کو بھی مسترد کر دیا۔ تحریک کے رہنما طلبا نے صدر سے اسمبلیوں کی تحلیل کا مطالبہ کر دیا۔ صدر نے بھی فورا عملدرآمد کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ اب بنگلہ دیش دوبارہ نارمل حالات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ تشدد اور بھرپور مزاحمت کے بعد تقریباً 17 کروڑ کی آبادی والے ملک میں نگران سیٹ اپ آ چکا ہے۔ طلبا کی جانب سے منتخب کردہ ایک بینکر، ماہر اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس عبوری حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں۔ ڈاکٹر یونس کی کابینہ میں طلبا بھی شامل ہیں جو جلد ہی ملک میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کریں گے۔ حسینہ واجد کے بیٹے نے بیان دیا ہے کہ نئے الیکشن کا اعلان ہوتے ہی شیخ حسینہ وطن واپس لوٹ جائیں گی جو کہ اچنبھے کی بات ہے۔ شیخ حسینہ جس کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی وجہ سے یورپ اور امریکہ پناہ دینے سے انکاری ہیں وہ اب الیکش کے دوران ملک لوٹنے کی خواہشمند ہیں۔ جو کْچھ ان چند دنوں میں بنگلہ دیش میں بظاھر طلبا نے کیا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ تاہم بنگلہ دیش جیسی صورتحال کا سامنا پاکستان کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ برے حالات کے پیشِ نظر پاکستان میں بھی بڑی احتجاجی تحریک کی سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے یوتھ ونگ کو تازہ دم رہنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ طلبا کو آرگنائز کر کے بنگلہ دیش والا ماڈل اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اڈیالہ جیل سے عمران خان نے طلبا کو 13 اگست کو پاکستانی جھنڈے لیکر سڑکوں پر نکلنے کی ہدایت دی ہے۔ پٹرول ، گیس اور بجلی کے بلوں نے ویسے ہی عوام کی کمر توڑدی ہے۔ بجلی کے بل اب زندگیاں بھی نگلنے لگے ہیں۔ ملک میں بیروزگاری اور انسانی حقوق کی خلاف وزیاں بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اڈیالہ میں بیٹھا کپتان عوام کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے۔ مگر حکمران ہیں کہ اقتدار کے نشے سے بیدار ہونا ہی نہیں چاہتے۔ اگر عوام کو ریلیف اور بے گناہ قید سیاسی حریفوں کو آزاد نہ کیا گیا تو ان کا تخت تختے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں کہ کیا جنوبی ایشیائی خطے میں بنگلہ دیش میں انقلاب بعد اگلی باری پاکستان کی ہے؟
تبصرے بند ہیں.