میاں چنوں کے سپوت نے غیر متوقع طور پر اپنی محنت ،جستجو اور سچی لگن کے بل بوتے پر وہ کر دکھایا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی انھوں نے ثابت کیاکہ ہیرے اور ہیرو گاؤں کے کچے مکانوں سے نکلتے ہیں شہروں کے ایلیٹ کلب سے نہیں۔ارشدندیم نے ثابت کیاکہ انسان میں سچی لگن ہو محنت کا جذبہ ہو اور اس کی سمت درست ہوتو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ہمارے ہیرو ارشد ندیم کی ہمت کو جتنا بھی سراہا جائے یقینا وہ کم ہے، نامساعد حالات کو اس نے اپنی کمزوری نہیں بلکہ طاقت بنایااور آج کی نوجوان نسل کو بھی پیغام دیا کہ ملک کے لئے کچھ کرنیکاجذبہ ہوتو نیک نیتی سے جت جاو۔یہ عین حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرکٹرز کو تو ہرکوئی جانتا ہے انہیں پرموٹ بھی بھرپور طریقے سے کیاجاتا ہے لیکن دوسرے کھیلوں اور ان سے جڑے کھلاڑیوں کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ ارشدندیم جس کے پاس نہ مالی وسائل تھے نہ ہی کوئی سہولیات، دھرتی کے اس سپوت نے پیرس اولمپکس میں جیولین تھرو میں گولڈ میڈل جیت کر پورے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔ پاکستان نے تقریبا چالیس سال بعد اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔آپ صرف اس منظر کودیکھیں جب ارشدندیم نے جیولین تھرو کیا اور جب انہیں معلوم ہواکہ ان کی جیولین سب سے آگے رہی تو سبز ہلالی پرچم اور قومی ترانہ جب پیرس میں چل رہا تھا تو قوم کا سر فخرسے بلندکرنیوالے ارشد ندیم کی آنکھ میں آنسوتھے لیکن یہ آنسو فتح کے آنسوتھے ، خوشی کے آنسو تھے جس میں ہمارے ہیرو ارشد ندیم کی انتھک محنت شامل تھی۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ میاں چنوں کا نوجوان جس کیپاس وسائل بھی نہیں تھیوہ یہاں تک کیسے پہنچا۔۔قومی ہیرو ارشدندیم 2012 میں منعقد کروائے گئے یوتھ سپورٹس فیسٹیول میں منظر عام پر آیا۔ یہ فیسٹیول اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے منعقد کروایا گیا تھا۔ ارشد ندیم کاکہنا ہے کہ اگر اس طرح کے سپورٹس فیسٹول ہوں توپاکستانی نوجوان کھیلوں میں بہت آگے جا سکتے ہیں قومی ہیرو کی اس بات سے میں مکمل متفق ہوں کیونکہ کسی بھی شعبہ میں اگر ہم نے آگے جانا ہے تو اس کیلئے منصوبہ بندی یا حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے اورہمارے نوجوان ہی ہمارا مستقبل ہیں ۔ سپورٹس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی خادمِ پاکستان میاں شہبازشریف نے کامیاب سپورٹس فیسٹیول کروایا۔ یوں تو شہبازشریف کا نام آتے ہی ذہن میں فورا انڈر پاس، فلائی اوورز جیسے میگا پروجیکٹس آتے ہیں لیکن ان کے دور میں یوتھ کیلئے بھی بہت کچھ کیا گیا۔یہاں سپورٹس فیسٹول کا ذکرکرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ شہباز شریف کے اسی سپورٹس فیسٹول کی وجہ سے میاں چنوں کا سپوت ارشد ندیم گولڈ میڈلسٹ بنا اورسبز ہلالی پرچم تھامے ہوئے پوری قوم کا سرفخر سے بلندکیا۔ یہاں پر اس وقت کے سپورٹس منسٹر رانا مشہود احمد خان کا ذکر بھی نہایت اہم ہے کیونکہ اس دورمیں پنجاب میں سپورٹس فیسٹول رانا مشہود احمد خان نے کروائے تھے اور ان کا ہمیشہ فوکس ہوتا تھاکہ نئے ٹیلنٹ کو صرف دریافت نہیں کرنا بلکہ انہیں آگے لانا ہے تاکہ وہ آگے چل کرملک کا نام روشن کریں۔۔۔ارشدندیم ہمارے ہیرو ہیں اور انہوں نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہے لیکن اس جیت کا کریڈٹ نوجوانوں کو حقیقی معنوں میں پروموٹ کرنے والے وزیراعظم شہبازشریف کوجاتا ہے یہاں پر یہ ذکرکرنا بھی ضروری ہے کہ پیرس اولمپکس میں شرکت سے قبل وزیراعظم شہبازشریف نے ان سے ملاقات بھی کی تھی جس میں انہیں بھرپور سپورٹ کاکہا اور یہ بھی کہا تھاکہ آپ ہمارا فخر ہے۔ایک طرف وزیراعظم شہبازشریف تو دوسری جانب بانی پی ٹی آئی جو خود سپورٹس مین تھے لیکن انھوں نے جس طرح سپورٹس کوتباہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔ یہ پوری قوم کیلئے خوشی کا موقع ہے اس لئے یہاں ایسی باتوں کا ذکر مناسب نہیں لیکن کالم کے اختتام پر قارئین سے ایک سوال ضرور کرتا چلوں کہ ایک طرف شہبازشریف جنہوں نے طلبہ کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپس دیئے تاکہ وہ جدید تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں،دانش سکول بنائے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو سکول داخل کروایا پنجاب میں یوتھ سپورٹس فیسٹیول کروا کر ارشد ندیم جیسے ہیروز کو دریافت کیا اور دوسری جانب تبدیلی کا دعوی کرنے والا ایک ایسا شخص تھا جس نے زمان پارک اوربنی گالا میں نوجوانوں کی غلط ذہن سازی کی،نو مئی کا سانحہ کروایا ،طلبہ کو پٹرول بم بنانا سکھائے۔قارئین اب یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ بہترین لیڈرکون ہے جس نے طلبہ کو لیپ ٹاپ دیئے یا وہ شخص جس نے نوجوانوں کی غلط انداز میں ذہن سازی کرتے ہوئے نوجوانوں کو شرانگیزی جیسی منفی سرگرمیوں کی ترغیب دی۔
تبصرے بند ہیں.