قاتل، بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد اپنی صفائی میں مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں اور حقائق مسخ کرنے سے باز نہیں آتے۔ چودہ سو برس سے یہی کچھ ہو رہا ہے، آج اسماعیل ہنیہ کے معاملے میں بھی یہی کچھ نظر آتا ہے۔ وہ ایران میں مہمان تھے۔ ایک تقریب میں شرکت کیلئے آئے اور یہودی و امریکی استعمار کا نشانہ بن گئے۔ ابتدائی اطلاع میں بتایا گیا کہ وہ ایک میزائل حملے میں شہید ہو گئے ہیں، بعدازاں قاتلوں کو خیال آیا کہ سب دنیا یہ کھوج لگانے میں جُت گئی تو ایک نہ ایک روز اس حقیقت تک ضرور پہنچ جائے گی کہ یہ میزائل کس نے فائر کیا اور کہاں سے فائر کیا گیا، پس اب قاتلوں نے قدموں کے نشان مٹانے کیلئے نئی کہانی گھڑی ہے اور ایک اخبار کے ذریعے دنیا تک پہنچائی ہے۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے کچھ گم نام افراد کا حوالہ دیا گیا ہے اور ان کا تعلق ایران سے جوڑا گیا ہے تاکہ دنیا اس کہانی پر یقین کرے۔ نئی کہانی میں حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جناب اسماعیل ہنیہ کی شہادت ایک ریموٹ کنٹرول بم کی زد میں آکر ہوئی ہے۔ یہ کہانی گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ نکتہ اہم ترین ہے۔ ذرا ریموٹ بم حملے کی تفصیلات پر نظر ڈالیں۔ اسماعیل ہنیہ ایک ایسی عمارت میں ٹھہرائے گئے جو سابق فوجیوں کے زیر استعمال رہی۔ یہ گنجان آبادیوں سے خاصے فاصلے پر ہے۔ سہ منزلہ عمارت کی دوسری منزل پر وہ کمرہ ہے جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہاں ایک بم نصب کیا گیا تھا۔ بم نصب کرنے والے اس بات سے باخبر تھے کہ یہ عمارت اہم شخصیات اہم مہمانوں کی پناہگاہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہاں ایسے اجلاس بھی منعقد ہوتے ہیں جس میں ایران اور ایران کے دوست ملکوں ، تنظیموں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات بھی شریک ہوتی ہیں، قاتلوں یا ان کے ساتھیوں کو اس امر کی اطلاع تھی کہ جناب اسماعیل ہنیہ کو یہاں ٹھہرایا جائے گا۔ انہوں نے کئی ماہ قبل یہاں بم نصب کر دیا جو ایک ریموٹ کے ذریعے چلایا جا سکتا تھا۔ بم پھٹا تو اس سے صرف ایک کمرے کو نقصان پہنچا جس میں جناب اسماعیل ہنیہ موجود تھے۔ وہ اور ان کا ایک محافظ اس بم کے چلنے سے جام شہادت نوش کر گئے۔ بم دھماکے کی آواز سن کر کچھ اور لوگ جو زمینی اور پہلی منزل پر موجود تھے وہ دھماکے کی آواز والی جگہ کی طرف بڑھے جہاں انہوں نے دیکھا کہ وہ کمرہ اپنے مکین سمیت منہدم ہو چکا ہے۔ گھڑی گھڑائی کہانی میں یہ بھی کہا گیا کہ اس بم دھماکے میں عمارت کے دوسرے حصے محفوظ رہے۔
افواج سے تعلق رکھنے والے اور اسلحہ بنانے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے اور اس کے ساتھ اسلحہ چلانے والے خوب جانتے ہیں۔ کہیں ایسا بم دھماکہ جو متعدد افراد کیلئے جان لیوا ثابت ہو اس دھماکے سے پیدا ہونے والے ارتعاش سے عمارت کا صرف ایک کمرہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ بم دھماکے والی جگہ تو تباہ ہوئی ہے۔ عمارت کے دوسرے حصوں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ یہ بھی دھماکہ تھا یا کسی ماہر درزی نے تھری پیس سوٹ کے کپڑے سے صرف واسکٹ کا پیس علیحدہ کیا اور باقی ٹکڑا صحیح سلامت رہا؟ کوئی اور چھت نہ گری نہ ہی عمارت میں دراڑ آئی۔
واقعہ درحقیقت وہی ہے جو پہلے پہل سامنے آیا جناب اسماعیل ہنیہ عمارت کے جس کمرے میں مقیم تھے اسے گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ میزائل کو راستہ دکھانے کیلئے اس کمرے میں ، کمرے کے کسی سامان کے ساتھ، کھانے کی ٹرے، پانی کے گلاس، جائے نماز کے کونے، کمرے کے پردے، حتیٰ کہ جناب ہنیہ کے ساتھ موجود کسی خدمت گار، گارڈ کے سامان یا لباس کے ساتھ وہ سِم چمٹا دی گئی جو ایسے مقاصد کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ ایسے اٹیک کیلئے عموماً نصف رات کے بیت جانے کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی قسم کی فوری طبی امداد یا ریسکیو ٹیمیں بروقت نہ پہنچ سکیں۔ جناب اسماعیل ہنیہ میزائل کے ٹکڑوں کی زد میں شدید زخمی ہوئے، انہیں فوری طبی امداد پہنچانے کا ایک منظر واقعے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر نظر آیا پھر غائب کر دیا گیا۔ اس منظر میں جناب اسماعیل ہنیہ شدید زخمی حالت میں نظر آتے ہیں، ان کا سر بری طرح زخمی ہے، چہرہ بھی خون آلود ہے، ڈاکٹر ان کے زخموں سے بہتا ہوا لہو صاف کرتے نظر آتے ہیں۔ انہی اطلاعات کے مطابق جناب اسماعیل ہنیہ شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو گئے اور امر ہو گئے۔ کچھ عجیب نہیں قاتلوں کے گماشتے ایک اور کہانی گھڑ لیں کہ ایسی فوٹیج میں نظر آنے والی شخصیات جناب اسماعیل ہنیہ نہیں بلکہ ان کا کوئی ہم شکل ہے جو کسی اور واقعے میں زخمی ہوا ہے۔
اب آتے ہیں اصل نکتے کی طرف کہ یہ کہانی گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اگر واقعہ بم دھماکہ مان لیا جائے تو قاتل ٹولہ بغیر کسی مشکل کے صاف بچ نکلتا ہے، اس پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی لیکن میزائل چلانے والوں کا سراغ لگا لیا جائے تو پھر قاتل فرد جرم سے نہیں بچ سکتے۔ واقعے کو بم دھماکہ بنانے کی کوششیں اس لئے کی جا رہی ہیں کہ اسے ایران کا داخلے معاملہ ثابت کیا جائے اور غفلت کی مرتکب ان کی سکیورٹی اور مجرم ان کی صفوں میں تلاش کرنے کیلئے محققین کا رخ موڑا جا سکے۔
میزائل حملہ ثابت ہو جائے تو یہ ڈھونڈنا مشکل نہیں کہ میزائل کہاں سے کتنے فاصلے سے چلایا گیا، چلانے والے ریموٹ لے کر کہاں بیٹھے تھے۔
ایران، میزائل ٹیکنالوجی میں اسرائیل سے زیادہ ترقی کر چکا ہے، اس کے اسلحہ ماہرین کھوج نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کے ہنگامی دورہ امریکہ سے پندرہ روز قبل فلسطین میں جنگ آزادی لڑنے والے پندرہ گروپوں نے اتحاد کا اعلان کیا تو اسرائیلی فوج اور اس کی حکومت کی نیندیں اڑ گئیں، نیتن یاھو کے دورہ امریکہ میں ان گروپوں سے نبرد آزما ہونے کی تفصیل سے منصوبہ بندی ہوئی جس میں طے پایا کہ ان حریت پسند گروپوں کے سربراہوں کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جائے گا۔ آج دنیا بھر میں شہید اسماعیل ہنیہ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ مذمتی بیان تواتر سے ہر ملک کی طرف سے آرہے ہیں، کیا صرف یہی کچھ کافی ہے، امریکہ نے اسرائیل پر حملے کی صورت میں اس کے دفاع کا اعلان کیا ہے۔ کیا کسی مسلمان ملک نے ایران کے ساتھ اس انداز میں اظہار یکجہتی کیا ہے؟ ایران کے ساتھ میدان عمل میں فلسطینی ، سوڈانی اور حوثی نظر آئیں گے، باقی سب باتیں بناتے رہیں گے، اب کوئی جہاد کا اعلان نہیں کرے گا۔ خون ناحق کی پردہ داری نہ ہو سکے گی۔
تبصرے بند ہیں.