مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے مذہبی طبقات میں بے چینی اور اضطراب کی جو لہر پیدا کی ہے وہ کم ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست کو جزوی طور پر قبول کرتے ہوئے فیصلے میں متنازع امور کو باقی رکھا ہے اور یہی متنازع امور مذہبی طبقات کے لیے ناقابل قبول اور بے چینی و اضطراب کا باعث ہیں۔ سپریم کورٹ نے گھر کی چاردیواری، عبادت گاہ اور مخصوص نجی اداروں کے اندرقادیانیوں کوتحریف قرآن اور اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دی ہے۔مذہبی طبقات کی بے چینی کا باعث یہ امر ہے کہ قادیانی گھر،عبادت گاہ اور نجی تعلیمی اداروں کا سہارا لے کر تحریف قرآن اور توہین قرآن نیز توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔وہ تفسیر کے عنوان سے جو لٹریچر چھاپتے ہیں وہ صرف گھروں، عبادت گاہوں اور نجی تعلیمی اداروں کے اندر تک محدود نہیں رہتا۔قادیانی مختلف حیلے بہانوں سے اسے سماج میں تقسیم کرتے اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔اسی طرح اس تحریف شدہ قرآن کو انٹرنیٹ پر اپلوڈ کر کے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے ۔
سپریم کورٹ اور ارباب اختیار کوان حقائق کی تفہیم کے لیے قادیانیوں کے خلاف اب تک ہونے والی جدو جہد کو سامنے رکھ کر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ قادیانیوں کے حوالے سے مذہبی طبقات کی اب تک ہونے والی جدوجہددو مرحلوں پر مشتمل ہے ،پہلا مرحلہ 1974 میں انہیں ریاستی سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دینا تھااور دوسرامرحلہ 1984 میں امتناع قادیا نیت آرڈیننس کی صورت میں انہیں خود کو مسلمان ڈکلیئر کرنے اور اپنی مذہب کی تبلیغ وترویج سے منع کرنا تھا۔ دوسرے مرحلے کا دائرہ کار 1993 تک محیط ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امتنا ع قادیانیت آرڈیننس آ نے کے بعد قادیانی اس کے خلاف مختلف عدالتوں میں چلے گئے۔ سب سے پہلے وفاقی شرعی عدالت گئے اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ امتناع قادیا نیت آرڈیننس اسلامی تعلیمات کے منافی ہے کیوں کہ مذہب اسلام تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے طویل غور و خوض کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ آرڈیننس اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہے۔ دوسرا کیس نوے کی دہائی میں سامنے آیا جو مجیب الرحمان کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے3 جولائی 1993ء کو چار ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایاکہ امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آْئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔اس دوسرے مرحلے کے بعد بظاہر قادیانیت کا مسئلہ حل ہوتا نظر آر ہا تھا لیکن قادیانیو ں کی سرگرمیوں نے چند سال بعد ہی واضح کر دیا کہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا۔ قادیانیوں کو سر عام اسلامی شعائر کے استعمال اور اپنے مذہب کی تبلیغ سے روک دیا گیاتو انہوں نے اپنی عباد ت گاہوں، تعلیم گاہوں اورچار دیواری کے اندر اسلامی شعائر کا استعمال اور تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔اس تبلیغ اور چار دیواری کے اندر کی سرگرمیوں کے نتیجے میں سیکڑوں سادہ لوح مسلمان ان کے دام تذویر میں آ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے مذہبی طبقات وقتاً فوقتاً ان کے مکر و فریب کو عدالتی اور سماجی سطح پر واضح کرتے رہے۔
عدالتی سطح پر جب بھی مذہبی طبقات نے ان کے مکر و فریب کو واضح کرنے کی کوشش کی تو عدالت اور مذہبی طبقات کو ایک تضاد کا سامنا کرنا پڑا۔ مذہبی طبقات کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ قادیانی اپنی عباد ت گاہ،تعلیم گاہ اورچار دیواری کا سہارا لے کراب تک سیکڑوں مسلمانوں کو اپنے دام تذویر میں پھنسا کر ان کی آخرت برباد کر چکے ہیں۔جبکہ عدالت کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ آئینی و قانونی طور پردیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی اپنی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں اور چار دیواری کے اندر اپنی مذہبی رسومات اور دیگر سرگرمیوں کی اجازت حاصل ہے کہ یہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کا مطالبہ ہے۔اس ضمن میں عدالت اپنے پیش رو شریعہ کورٹ1984اورسپریم کورٹ 1993 کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیتی ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ پیچیدگی مذکورہ دونوں فیصلوں میں بھی موجود ہے۔ عدالتیں اس بنیادی مستدل کو تو مانتی ہیں کہ مرزائی دھوکہ دہی کی روش سے بازنہیں آتے اور سادہ لوح مسلمانوں کو منحرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عدالتیں اس مستدل سے ثابت ہونے والے حکم کو مقید کردیتی ہیں کہ سرعام دھوکہ دینے کی اجازت نہیں البتہ عبادت گاہ ،تعلیم گاہ اور چار دیواری کے اندر دھوکہ دہی کی اجازت ہے۔اسی طرح عدالتیں یہ تو تسلیم کرتی ہیں کہ تحریف قرآن ، توہین قرآن اور توہین رسالت جرم ہیں لیکن چار دیواری کے اندر اس جرم کی اجازت دیتی ہیں۔ عدلیہ آئین کا حوالہ دے کر خاموش ہوجاتی ہے اورآئین میں ترمیم کا اختیارعدلیہ کے پاس نہیں ہے۔اس لیے عدلیہ اس مسئلے کو تسلیم کرنے کے باوجود بظاہر اس کے حل سے بے بس ہے اور یوں یہ مسئلہ سال سے حل نہیں ہو رہا۔
میرے خیال میں مذہبی طبقات کو بھی اب اس صورتحال کو سمجھنا چاہئے اور اپنی جدو جہد کا رخ عدلیہ کے ساتھ پارلیمنٹ کی طر ف بھی کرنا چاہیے۔جس طرح 1974 میں پارلیمنٹ کے ذریعے انہیں غیر مسلم اقلیت تسلیم کرایا گیا تھا اسی طرح اب پارلیمنٹ کے اندر یہ جدوجہد کی جائے کہ قادیانی اپنے مذہب ، مذہبی عبادات اور رسوم کے لیے نئے نام اور اصطلاحات وضع کریں۔ جدو جہد کے اس مرحلے کے لیے پہلے سے طے شدہ امور کوچھیڑنا ضروری نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کی طرف سے اس مطالبہ نما خدشے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ قادیانیت کی سرگرمیوں کے حوالے سے آج جو مسائل درپیش ہیں اس کا یہی حل ہے کہ اب عدلیہ کے ساتھ پارلیمنٹ بھی کا رخ کیاجائے اور اس کے سامنے مذہبی و عقلی استدلال کے ذریعے ثابت کیا جائے کہ کس طرح قادیانی چار دیواری کا سہار الے کر دھوکہ دہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔کس طرح یہ گروہ چاردیواری اور عبادت گاہ کی آڑ لے کر ہزاروں مسلمانوں کا ایمان لوٹ چکا ہے۔ پارلیمنٹ کو یہ باور کرایا جائے کہ جرم اگرچار دیواری سے باہر جرم ہے تو اندر بھی جرم ہے۔ اگر مسلمانوں کے نام رجسٹرڈ حقوق سے کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کی طرف سے پیدا کردہ ہے اور اس کا حل ڈھونڈنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔
اس کے لیے مذہبی جماعتوں کو گرینڈ ڈائیلاگ کرنے اور مختلف افراد اور اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام الناس کی ذہن سازی ، مذہبی و عقلی استدلال کے ذریعے مسئلے کی تفہیم،مذہبی و سماجی دانش،سوشل میڈیا سمیت مین سٹریم میڈیا ،با اثر حلقوں تک رسائی اورریاستی مشینری کو اس جدوجہد میں شامل کرکے اس مسئلے کے حل کے امکانات کوبہت حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.