سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانیز کے اجلاس میں اوورسیز وزارت کے حکام کی طرف سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یو اے ای میں جتنا کرائم ہواہے اس میں 50 فیصد پاکستانی ملوث ہیں۔ پاکستانی لوگوں کا رویہ اور ان کے کام کرنے کی اخلاقیات بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستانی کریمنل سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اب یو اے ای میں پاکستانی ورک فورس کو ویزے نہیں مل رہے۔ یہ رپورٹ وزارت سمندر پار پاکستانیز کی طرف سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد قائمہ کمیٹی کو چاہیے کہ وہ حکومت کو فوری سفارش کرے کہ یو اے ای میں جتنا بھی سفارتی عملہ ہے اسے برطرف اور گرفتار کر کے پاکستان لایا جائے۔ وزارت نے بڑی آسانی کے ساتھ کہہ دیا کہ 50فیصد پاکستانی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔اگر یہ درست ہے تو پھر سفارتخانہ اور وزارت خارجہ کیا کررہی ہے؟۔ پاکستانیوں کو ہنراور اخلاقیات سکھانا کس کی ذمہ داری ہے؟۔ یہ صرف پاکستانی شہریوں کی کریمنل ایکٹیوٹیز کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر یو اے ای سے آرہی ہیں۔ اس وقت پاکستان ڈالر ڈالر کا محتاج ہے اور اگر یو اے ای سے بھی ترسیلات زر آنا کم ہو گئیں یا بند ہوگئیں تو پاکستان کی معاشی تباہی میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ یو اے ای کے اندر پاکستانی جو گل کھلارہے ہیں اس پر حکومت خاموش ہے۔ اس کھیل کا آغاز پاکستان کے اندر سے ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کو فرضی اور جعلی کاغذات پر انسانی سمگلر یو اے ای اور دیگر عرب ممالک میں بھجواتے ہیں۔ اس کے عوض لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ غیر ہنر مند افراد سے بھی لاکھوں روپے لے کر اْن کے ویزے لگوائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ جب بیرون ملک جاتے ہیں ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگاری کے دن کاٹتے ہیں اور پھر جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے اور لیا گیا قرض واپس کرنے کے لئے جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس وقت یو اے ای میں سب سے زیادہ بینکوں کے ساتھ فراڈ کرنے والے پاکستانی ہیں۔ یہ فرضی کاغذات پر اہم عہدوں کے ویزے حاصل کرتے ہیں اور پھر وہاں بیٹھا ہوا مافیا ان لوگوں کے نام اور ان کے کاغذات پر بھاری قرض حاصل کرتا ہے اور پھر اونے پونے ان لوگوں کو دے کر باقی پیسے ہڑپ کر لئے جاتے ہیں اور پھر ان مالی جرائم میں ملوث لوگوں کے پاس ملک سے بھاگنے یا پکڑے جانے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہوتا اور پچھلے دو سال میں یہ جرم تواتر کے ساتھ ہورہا ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 29 ہزار پاکستانی مختلف ملکوں کی جیلوں میں قید ہیں۔ سعودی عرب میں 9 ہزار اور یو اے ای میں ساڑھے 9 ہزار پاکستانی قید ہیں۔ یو اے ای نے پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے تقریباً ویزے دینا بند کر دئیے ہیں۔ انڈین لابی بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہی ہے۔ انڈین پاکستانیوں کے کاغذات اپنے غیر قانونی معاملات میں استعمال کرتے ہیں اور پھنس پاکستانی جاتے ہیں۔
یو اے ای میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے بارے میں وہاں کے پاکستانی آنسوؤں کے ساتھ ان کے ظلم کی داستانیں سناتے ہیں۔ فجیرا جیسے دور دراز علاقوں سے مزدور اپنے کاموں کے لئے دبئی میں سفارتخانے آتے ہیں تو انہیں ذلیل کیا جاتا ہے۔ آٹھ، دس لوگوں کو سفارتخانے کے اندر بلا لیا جاتا ہے اور بقیہ دھوپ میں جلتے رہتے ہیں یا انہیں اگلے دن آنے کے لئے کہاجاتا ہے۔ فجیرا سے دبئی کے سفری اخراجات 5 سو درہم تک ہیں۔ یہ سفارتخانہ پیسے بٹورنے کے لئے ان کے چکر لگواتا ہے۔ پاکستانی سفارتخانہ سب سے زیادہ تذلیل کرتا ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، کوئی راہ نمائی نہیں ہے۔ جرائم کرنے والے پاکستانیوں کی وجہ سے وہ پاکستانی بھی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں جو پڑھے لکھے ہیں، دیانتداری سے کام کررہے ہیں انہیں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس سارے معاملات کی چھان بین کے لئے ایک اعلیٰ انکوائری کمیشن بننا چاہیے۔ رشوت خور، ہڈ حرام سفارتی عملے کو واپس بلا لینا چاہیے۔ وزارت خارجہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ غیر ہنر مند افراد کو کون ویزے دیتا ہے؟ اور کون سے گروہ انہیں بیرون ملک بھجواتے ہیں اور وہاں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس پر تفصیلی رپورٹ مرتب ہونی چاہیے اور ایسے جعل سازوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے جو ملک کی ساکھ کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیوں کو بھی داؤ پر لگارہے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی بہترین پروڈکٹ بھی انڈین پیکنگ میں سیل ہوتی ہے کیونکہ پاکستانیوں کو ایماندار سمجھا ہی نہیں جاتا۔ پاکستان کے اندر لوگ اتنے تنگ ہیں کہ وہ گھر بار بیچ کر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان میں روزگار ہے نہ تحفظ۔ریاست کے ذمہ داروں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ 25 کروڑ عوام کے ملک کو جہنم زار نہ بنائیں؟ دنیا کا کوئی ملک اتنی بڑی آبادی کو نہیں سنبھال سکے گا۔ جتنی تباہی ہو چکی ہے اس کا اکتفا کر لیا جائے ورنہ یہ25 کروڑ آبادی والا ملک نہ جی سکے گا اور نہ مر سکے گا۔
تبصرے بند ہیں.