ایک جواب کا سوال!

45

کل کی بات ہے جب ہمارے یہاں یار لوگ اپنے مسئلے مسائل یا پریشانیوں کے حل کے لئے اپنے آس پاس کسی ”سیانے“ سے رجوع کرتے تھے۔ یہ سیانا بھلے جتنا بھی سمجھدار ہوتا اپنے عمر بھر کے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر بڑی سنجیدگی سے ان ”ایانوں“ کو مشورہ دیتا تھا جو بعض اوقات ٹھیک بھی نکل آتا تھا۔ آج وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ جہاں اور بہت کچھ تبدیل ہو گیا ہے وہاں ان روایتی سیانوں کی جگہ اب مصنوعی ذہانت نے لے لی ہے جس نے ہمارے جیسے بے شمار ”ماہتڑوں“ کی مشکل آسان کر دی ہے۔ اب کسی ”ایانے“ کو کسی ”سیانے“ کے مشورے اور رہنمائی کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ اب جسے جب جہاں اور جیسے کوئی مشکل پیش آتی ہے وہ اس مشکل کو مصنوعی ذہانت کے سپرد کرکے منٹوں سیکنڈوں میں بڑے آرام سے اپنے مسئلے کا حل دریافت کر لیتا ہے۔ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کی سہولت سے لوگ کس طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے ہاں ایک عام آدمی اس سے کیسے استفادہ کر رہا ہے۔ اس موضوع پر میں پہلے بھی نمونے کے طور پر ایک کالم تحریر کر چکا ہوں لیکن اس بار میرے کالم کا موضوع ہمارے ملک کے وہ چند گنے چنے خاص افراد ہیں جو کبھی یہ سمجھتے تھے یا اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی جوڑ نہیں ہے مگر آج وہ اپنی اس خام خیالی کے ہاتھوں بُری طرح مشکلات کا شکار ہیں جس سے نکلنے کے لئے انہیں بھی مجبوراً مصنوعی ذہانت کے در پر سوالی بننا پڑا ہے۔ ان سوالیوں کے کس قسم کے سوال اور اُن کے کیا جواب ہیں آئیے اس کے چند ایک نمونے ملاحظہ کرتے ہیں۔

سوال: مصنوعی ذہانت جی!میرا نام تیس مارخان ہے میں ایک عالمی شہرت یافتہ سابق کرکٹر ہوں اور سیاسی میدان میں بڑا عرصہ خجل خواری کے بعد بالآخر غیبی مدد سے اپنے ملک کا سابق وزیر اعظم بھی رہ چکا ہوں۔مگر یہ عزت مجھے ہضم نہیں ہوئی اور میں عوام میں اپنی مصنوعی مقبولیت کے زعم میں اپنے انہی محسنوں پر چڑھ دوڑا جنھوں نے مجھے عزت کی کرسی پر بٹھایا تھا۔ اس دوران میں نے ملک کی نوجوان نسل کو بگاڑنے کے ساتھ کچھ ایسی فاش غلطیاں بھی کیں جو ملک کی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک تھیں۔ اپنی ان غلطیوں کی وجہ سے اب میں مہینوں سے جیل میں اپنے کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہوں۔ میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ میں اس مشکل سے کس طرح نکلوں؟

مصنوعی ذہانت: تیس مار خان جی! آپ نے اپنی نام نہاد مقبولیت کے زعم میں محسن کشی کرکے انتہائی چھوٹے پن کا ثبوت دیا ہے۔جس کی فوری معافی کی فی الحال کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ میرا آپ کو مشورہ ہے کہ اب آپ مزید کوئی بونگی مارنے سے پرہیز کریں اور اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے لئے باقی زندگی بندے کا پُتر بن کے رہیں۔ اسی ایک نقطے سے آپ اپنے اندھیرے کو روشنی میں بدل سکتے ہیں۔

سوال: مصنوعی ذہانت جی!میرا نام چودھری تبریزالہی ہے۔میرا تعلق ایک مضبوط سیاسی گھرانے سے ہے۔ میں نے ہمیشہ اپنے کزن کے ساتھ مل کر کامیاب سیاست کی ہے لیکن پتا نہیں وہ کونسی منحوس گھڑی تھی جب میں اپنے بیٹے کی باتوں میں آکراُن لوگوں کے ساتھ مل گیاجو کبھی مجھے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے۔ بس اس کے بعد سے ناصرف میری سیاست کا بلکہ عزت،کاروبار اور خاندان کا شیرازہ بھی بکھر گیا ہے۔پلیز مجھے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی باعزت اور محفوظ راستہ بتائیں؟۔

مصنوعی ذہانت: سابق چوہدری صاحب سیاست میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اپنے دوستوں کی مشاورت سے بروقت اور درست فیصلہ کیا جائے۔ جس میں آپ مکمل ناکام رہے ہیں خاص طور پر آپ نے اپنے پرانے ”مہربانوں“ اور رشتہ داروں کو ناراض کر کے اچھا نہیں کیا۔ جس کا آپ کوخمیازہ بھگتنا پڑا اور جب تک آپ کی معافی نہیں ہوتی اس وقت تک بھگتتے رہیں گے۔ میرا مشورہ ہے کہ جب تک آپ کے لئے حالات سازگا ر نہیں ہوتے آپ لاہور یا گجرات جہاں بھی قیام پذیر ہوں صبح دوپہر اور شام نصرت فتح علی خان کی قوالی”میری توبہ میری توبہ“ اتنی اونچی آواز میں سنیں جس کی دھمک پنڈی تک پہنچ جائے۔ اس کے بعد شاید قبولیت کی کسی گھڑی میں آپ کو معافی مل جائے۔

سوال: مصنوعی ذہانت جی! میرا نام شیدا ٹلی ہے میں پاکستان کا جانا پہچانا سیاست دان ہوں اور اپنی سیاست کے آغاز سے پچھلے کچھ عرصے تک اپنے ”اُن“کی آنکھوں کا تارا رہا ہوں۔ اس دوران اپنے ”اُن“ کی مہربانی سے کئی دفعہ اہم وفاقی وزیر بھی رہا ہوں لیکن پھر میں چند بیوقوفوں کے بہکاوے میں ا ٓکر میں اپنے ”اُن“ کو ناراض کر بیٹھا ہوں جس کے نتیجے میں میرا عروج زوال میں تبدیل ہو چکا ہے اور گڑ گڑا کر اپنی غلطی کی معافی مانگنے کے باوجود مجھے معافی نہیں مل رہی۔ مجھے بتائیں میں اپنے روٹھے سیاں کوکس طرح مناؤں۔ یہاں تک کہ میں اپنے ”اُن“ کو منانے کیلئے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر گلی گلی ناچ بھی سکتا ہوں۔

جواب: شیدا ٹلی جی! آپ نے زندگی کی اتنی بہاریں دیکھ لی ہیں کہ اب آپ کو خود بھی یہ یاد نہیں ہو گا کہ آپ نے محض ”مولا خوش رکھے“ کے وظیفے سے مفتو مفت کتنی موجیں لوٹی ہیں۔ اب تو آپ کی وِگ میں بھی سفید بال آ گئے ہیں۔ بڑھاپے کی اس عمر میں پیروں میں گھنگھرو باندھ کر اپنے ”اُن“ کو منانے کی بجائے کسی گوشے میں تنہا بیٹھ کر اپنی زیادتیوں کو یاد کریں کہ آپ نے اپنے سیاسی و غیر سیاسی سفر میں اب تک کس کس کو اور کتنا چونا لگایا ہے اور پھر سچے دل سے اللہ سے معافی مانگیں۔ ممکن ہے بعد میں آپ کو رب سے معافی کی مہلت بھی نہ ملے۔

سوال: مصنوعی ذہانت جی!میرا نام ”چوری“ غلام حسین ہے میں ایک نیوز چینل پر سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر شرکت کرتا ہوں مگر دوران پروگرام نہ تو پروگرام کا میزبان اور نہ ہی اس کے دیگر شرکاء اور ناظرین میری باتوں کو سنجیدہ لیتے ہیں۔پلیز مجھے کوئی ایسا مشورہ دیں کہ میں دوران شو جب بھی غصے کی اداکاری کروں تو اپنے ایکسپریشن میں حسن نثار کو بھی پیچھے چھوڑ دوں اور دیکھنے والوں کو میری شکل دیکھ کر اور میرا تجزیہ سن کر ہنسی نہ آئے۔

مصنوعی ذہانت: چوری غلام حسین جی!میں نے آپ کے مسئلے کو سمجھنے کے لئے خاص طورآپ کے پروگرام کی تین چار ریکارڈنگ کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔بھلے آپ کو برا لگے مگر مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ٹاک شو میں آپ کی گفتگو سُن کر اور اس پر آپ کا غصے میں بیمار اونٹ کے گوڈے جیسا منہ دیکھ کر میرے اپنے لئے ہنسی روکنا مشکل ہوگیا تھا۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ غلط شعبے میں آ گئے ہیں قدرت نے آپ کو عقل کے ساتھ جس شکل اور ہُنر سے نوازا ہے میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ سٹیج ڈراموں میں کام کریں اپنے ایکسپریشن اور گفتگو سے بطور کامیڈین بہت جلد آپ مقبولیت کی معراج پر ہونگے۔

تبصرے بند ہیں.