اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ فوج کے افسروں اور جوانوں نے مادرِ وطن کے دفاع اور دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے جو قربانیاں دی ہیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ پوری قوم آپ کی قربانیوں کااعتراف کرتی ہے، مادرِ وطن کی سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے شہدا ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ مجھ سمیت ہر اہلِ وطن کو مسلح افواج کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد ہے۔ یہ میرے الفاظ ہر اہلِ وطن کے جذبات کی ترجمانی ہیں اور مجھے اس پر خیال آرائی فرمانے کا خیال گزشتہ روز لکی مروت میں پاک فوج کے ایک کیپٹن سرفراز الیاس سمیت سات جوانوں کی شہادت کے موقع پر آیا۔ اندرونی و بیرونی سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہمارے جوان یوں سینہ تان کر دشمن کا سامنا کرتے ہیں کہ ان کے نعرہئ تکبیر سے دشمن دہل جاتا ہے۔ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وردی، وطن، اللہ اور اپنی ماں سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کے لئے ہماری سپاہ تمام عسکری قیادتوں کے ساتھ جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں، وادیوں، گلیشیئرز، سمندروں اور فضاؤں میں اپنی خدمات جس طرح انجام دیتی ہیں وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ بے مثل بھی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فوج ریاست کی داخلی سلامتی اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف دفاع کا اہم ستون ہے جب کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے فوجی جوانوں اور افسروں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں، کسی بھی مہذب ملک میں کوئی جمہوری حکومت اپنی مسلح افواج کے وقار،پیشہ ورانہ کردار اور جنگ و امن کی حالت میں اس کی قومی خدمات پر سرشاریت کے ساتھ احترام و عقیدت کے پھول نچھاور کرتی ہے۔ فوج کے جوان ہمارے کل کے لئے اپنا آج قربان کر رہے ہیں اور یہ غازی اور شہید ہمارے محسن ہیں، قوم اپنے محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ جب کہ دشمنانِ وطن کی تو خواہش ہے کہ قوم میں تقسیم در تقسیم کا عمل تیز ہو تاکہ ان کے مذموم عزائم اور باطل مقاصد کے حصول کی راہ کی ہر رکاوٹ دور ہونے میں انہیں خود سے کچھ نہ کرنا پڑے۔ میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کے نئے تصورات کے عملی اطلاق، جمہوری سیاست میں ابھرنے والی توانا آوازوں اور شدید ردِ عمل اور اختلافی نقطہ نظر سے پیدا شدہ صورتحال سیاسی رہنماؤں، مذہبی اکابرین، میڈیا، سول سوسائٹی اور سیکورٹی کے اربابِ اختیار سے خاصی سنجیدگی، متانت، رواداری اور تدبر کا تقاضا کرتی ہے۔ ذرہ غیر جذباتی اور سنسنی خیزی سے ماورا سیاسی کلچر کو پنپنے کی ضرورت ہے۔ اربابِ اختیار کو قومی امور میں حاضر دماغی اور قوتِ فیصلہ کے سنگِ میل قائم کرنے چاہئیں۔
وقت خطے میں تبدیلیوں کی نوید دے رہا ہے، بلوچستان توجہ مانگتا ہے، طالبان ایک بار پھر سے اپنی قوتوں کو مجتمع کرنے کی کوشش میں ہیں۔ قومی جمہوری سیاست ارتقا پذیر ہے لیکن دہشت گردی، معاشی استحکام، غربت و مہنگائی اور میرٹ کا قتل سمیت امن و امان کی ناگفتہ بہ حالت نے قومی نفسیات پر بڑے گہرے اور ناقابلِ بیان اثرات مرتب کئے ہیں، عوام ایک نہیں کئی سر والے بحرانوں میں خود کو گرفتار دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ کے مشاہدے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جب قومیں مضبوط ہوتی ہیں تو سرمایہ کاری ان کی معیشت میں اضافے کا باعث بنتی ہے لیکن قومیں کمزور ہو جائیں تو بڑے ملکوں کی چھوٹی کمپنیاں بھی غلامی کا طویل دور ثابت ہوتی ہیں۔ اس لئے ہمیں ایک مضبوط فوج چاہئے جس کی موجودگی میں کوئی عالمی طاقت پاکستان کی طرف دیکھنے کی جرأت نہ کرے۔ بلوچستان میں مرکز گریز قوتیں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہیں۔ بھارت اور دیگر غیر ملکی طاقتیں مسلسل بلوچستان میں دہشت گرد عناصر کو مالی و دیگر سہولتیں فراہم کر رہی ہیں اور انہیں شہ دی جا رہی ہے کہ وہ بلوچستان کا مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف میں لے جائیں، خرچہ ہم برداشت کریں گے۔ اس سلسلے میں بعض امریکی سیاست دان بھی سویٹزر لینڈ اور لندن میں بیٹھے بعض ناراض بلوچ عناصر سے میل ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ آج عوام اور سیکورٹی اداروں میں تھوڑی بہت دوری نظر آ رہی ہے اسے ہر صورت ختم ہونا چاہئے۔ یہ کسی طور بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ مسلح افواج کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے جس کو بخوبی نبھا بھی رہی ہیں لیکن انہیں اپنے آپ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا چاہئے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
جمہوریت میں آئین کی بالادستی مسلم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارے آئین نہیں بناتے بلکہ آئین سے ادارے وجود میں آتے ہیں۔ آئین کے ذریعے مختلف اداروں کی حیثیت اور اختیارات کا تعین کر دیا جاتا ہے جس سے معاشرے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ آئین کی عدم موجودگی یا اس سے انحراف سے انتشار جنم لیتا ہے۔ جیسا کہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہماری ہر طرح کے اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ وہ وطنِ عزیز میں آئین کی پامالی کو روکیں۔ ہمیں ہر سطح پر عوام اور اداروں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو ختم کرنے کے لئے ہر قدم اٹھانا چاہئے بیشک اس کے لئے کسی کی بھی اناء آڑے آتی ہو۔
تبصرے بند ہیں.