مجھ میں ایک اچھی عادت ہے۔ میں کتاب پڑھے بغیر تبصرہ نہیں کرتا۔ ٹائیٹل دیکھ کر تعریفیں کبھی بھی نہیں کرتا۔ کیونکہ کتاب کا مواد لکھاری کا کمال ہوتا ہے اور ٹائیٹل آرٹسٹ کا کئی دفع کتاب کمزور مواد اور نہایت جاذب اور جاندار ٹائیٹل کی وجہ سے بیسٹ سیلر بن جاتی ہے اور بعض اوقات بے ہودہ ٹائیٹل لکھاری کی محبت پر پانی پھیر دیتا ہے اور وہ پڑھنے والوں کو نہ کتاب دکھانے کے قابل رہتا ہے نہ ہی منہ۔
کچھ احباب نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں اور بہت سی لکھی اور چھپی بھی ہیں مگر پڑھنے والوں کو نہ تو کسی کا نام یاد ہے نہ ہی ادیب کی شناخت۔
کتاب چھپوانے کی جلدی اور ضرورت ہر لکھاری کو ہوتی ہے کیونکہ جیسا کہ پچھلے تین چار سالوں نے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے انعام الحق جاوید صاحب کی سربراہی میں بہت سی کتابیں شائع کیں اور انعامات سے بھی لکھاریوں کو نوازا۔ آج سوشل میڈیا پر شور مچا ہوا ہے ہمارے پیارے غلام زادہ نعمان صابر کی کتاب کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ یہ حضرت قائداعظمؒ کے بارے میں کتاب ہے اور نہایت خوبصورت ہے۔ غلام زادہ نعمان صابری ایک پرخلوص لکھاری ہیں اور بچوں کے ادب میں نعمان صابری کا اک مقام ہے۔ ادھر محترمہ تسنیم جعفری صاحب کی کتاب کو بھی آج ایوارڈ سے نوازہ گیا۔ تسنیم جعفری صاحب کی پوسٹ کے ساتھ یہ فقرہ تھا ”اک خوش نوا فقیر…… کو“ آج کیش کا چیک اور ایوارڈ اچانک سے ملا تو انجانی خوشی ہوئی۔ تسنیم جعفری بچوں کے ادب سے خوب اور دل کی گہرائیوں سے وابستہ ہیں لکھتی چلی جا رہی ہیں۔ کتابیں چھپتی چلی جا رہی ہیں، بغیر کسی لالچ کے بغیر کسی طمع و تشہیر کے ایسے ہی جب لکھتی چلی جا رہی ہیں تو ایوارڈز بھی ملتے ہیں اور عوام میں پذیرائی بھی اسی طرح علی عمران ممتاز بھی ملتان میں نہ صرف دو رسالوں کی ادارت سنبھالے بیٹھا ہے۔ ساتھ ساتھ بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھتا چلا جا رہا ہے۔ آپ کہیں گے کہ بکرا عید اور بات کتابوں کی چل رہی ہے جس سے ہمیں شیخ صاحب کی صورت میں ہمسایہ نصیب ہوا ہے۔ ہماری بہت سے مسائل حل ہو چکے ہیں۔ شیخ صاحب نے عملی مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ عید قربان پر اگر آپ بچت کے رحجان کے باعث پرانے سوکھے زرد پٹھے (الو کے پٹھے نہیں) لے آئیں تو گھبرانا نہیں آپ کا بکرا جتنا بھی سیانا ہو…… ماڈرن ہو…… آپ اس کی آنکھوں پر سبز رنگ کے شیشوں والی عینک لگائیں اور مزے سے لم لیٹ ہو جائیں۔ آپ جان لیں کہ بکرے کو سب پراپر دکھائی دے گا اور وہ سمجھے گا کہ مال تازہ اور رنگین ہے۔ کھاتا چلا جائے گا ایک تو بے چارے بکرے پر عید قربان کا پریشر اور دوسرا یہ شیخ صاحب کی چالاکی وہ صاف ظاہر ہے مخمصے کا شکار تو ہوگا لیکن بے چارہ بھوک میں کیا کرتا وہ کون سا گھر بیٹھا آرڈر دے سکتا ہے کہ کمپنی سے مزے کے تازہ بنے لذیذ پٹھے منگوا کر جوس کے ساتھ کھا لے گا۔ خیر جہاں اس عید پر بکرے بیچنے والے ”ایلفی“ کا استعمال کرکے رات کے اندھیرے اور دن کی روشنی میں گاہک کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ قصائی بھی داؤ لگا لیتا ہے ایسے ہی بے چارے بکرے بھی کچھ کمینے مالکوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں اور میں میں کرتے…… اللہ کے سپرد…… ویسے وہڑہ عید قربان پر بی کہیں کہیں کنجوس مالکوں سے بھی دوڑیں لگوا کر ٹوڈھ مار کر اور قصائی (اگر اناڑی ہو تو) کو اپنے ساتھ فرش پر لٹا کر…… چیخیں نکلوا کر بدلہ لے لیتا ہے۔
ٹھگ سے یاد آیا جیسا کہ ہم نے اپنی اک تحریر میں بتایا تھا کہ ہماری بچپن سے ہی خواہش تھی کہ ہم فلم بناسی ٹھگ دیکھیں مگر ہمیں سادہ فلم دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ بنارسی ٹھگ ہم کیسے دیکھ پاتے۔ البتہ ہمارا زندگی بھر ٹھگوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے۔ نوکری کے دوران کاروباری لین دین میں …… اک بار ہمیں نہایت خوبصورت عالی شان سینگوں والا بکرا کسی سوداگر نے تھما دیا۔ دو دن تو مجھے خود محلے میں رعب جمایا کہ خوب مہنگا اور شان و شوکت والا بکرا ہے۔ جب بچوں نے محبت کی بجائے غصے سے ایک ہی بار اس کے بڑے سینگ کھینچے تو دونوں ہاتھ میں آ گئے۔ ایلفی کی پکڑ جو کمزور پڑ چکی تھی۔
ایسے ہی اک ادبی ٹھگی بھی حال ہی میں ہمارے ساتھ ہو گئی…… ایک صاحب مبشر سعید نے اپنا حال ہی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ چھپوایا۔ صاحب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے ڈاکٹر افضل حمید کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کر رہا تھا…… موضوع تھا…… ”فروغ ادب اطفال میں ماہانہ انوکھی کہانیاں کا کردار“…… پی ایچ ڈی کوئی معمولی ڈگری اور عام سا کام نہیں۔ اس میں بڑی عرق ریزی سے ریسوچ ورک کئی سال کی محنت شاقہ سے مکمل ہوتا ہے اور نگران کی بھی علمی قابلیت کا امتحان ہوتا ہے یہ مقابلہ چھپ کر کتابی صورت میں میرے ہاتھ آیا تو…… مجھے یاد آیا کہ کراچی کے ماہانہ ”انوکھی کہانیاں“ میں بہت عرصہ پہلے میری بیس پچیس نظمیں چھپ چکی ہیں …… مجھے صفحات کا جائزہ لیتے ہوئے میرے نظم ”ٹیپو بن یا ٹام“ نظر سے گزری جب میں نے ترتیب میں چھٹے بیس کے قریب نظموں کے عنوانات دیکھے تو مجھے یاد آ گیا کہ یہ سب تو میری نظمیں ہیں …… بہت سال پہلے میری یہ سب اور دوسری نظمیں ماہنامہ ”انوکھی کہانیاں“ میں چھپتی رہی ہیں …… مگر یہ کیا…… میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ان سب نظیموں پر میری جگہ کسی اور شاعر کا نام درج تھا۔ ہے ناں یہ علمی ادبی ٹھگی۔ میں نے ایڈیٹر ماہنامہ ”انوکھی کہانیاں“ محبوب الٰہی محمود سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ غلطی ہو چکی ہے۔ انہوں نے شاعر کا نام کاٹ کر پنسل سے میرا نام لکھ دیا…… یعنی حافظ مظفر محسن کے ساتھ ٹھگوں نے یہ سلوک کیا۔ میں نے اک پوسٹ سوشل میڈیا پر لگائی تو ڈاکٹر افضل حمید نے اقرار کیا کہ غلطی ہوئی ہے۔ دوسرے ایڈیشن میں ٹھیک ہو جائے گی۔ بندہ پوچھے ایسے مالات کا دوسرا ایڈیشن عام طور پر نہیں آتا…… اور آج کل بیس نظیموں کی تو لوگ بچوں کے آرٹ ورک کے ساتھ کتاب شائع کر لیت ہیں۔ میری یہ نظمیں جان بوجھ کر چوری کی گئی ہیں …… ابھی تک ناشر، مبشر سعید اور ڈاکٹر افضل حمید کی طرف سے مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔
میرے نام سے میری یہ نظمیں 1993، 1994، 1995 میں ماہنامہ ”انوکھی کہانیاں“ میں چھپ چکی ہیں۔ میری اس پوسٹ کو بڑی تعداد میں ادبی دوست احباب نے شیئر کیا اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد مبشر سعید اور ڈاکٹر افضل حمید سے احتجاج بھی کیا۔
سوری عید قربان کے موقع پر میں یہ نہیں کہتا کہ میری نظموں کی قربانی ہو گئی ان کو صرف یہ بتانا تھا کہ ٹھگی ہر میدان میں ہو رہی ہے ادب و علم کا شعبہ اور حافظ مظفر محسن بھی محفوظ نہیں۔ میرا شعر ملاحظہ کریں۔
غرا کے بات کرتا ہے ایسا غضب نہ کر
امی سے ڈرنا ابو سے ڈر دوستوں سے ڈر
تبصرے بند ہیں.