وزیر اعظم کا ایف بی آر بیوروکریسی کے متعلق حالیہ اقدام

77

اس سے پہلے بھی مالیاتی اداروں کے متعلق انہی صفحات پر مسائل کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ دراصل حالات نے 2018 کے بعد ایسی کروٹ بدلی کہ کرپشن اصل ذمہ داری جبکہ کاروباری دیانتداری اور سرکاری ذمہ داری کے تقاضے ماضی کا قصہ بن گئے۔ 1969 میں متحدہ پاکستان کے آخری حکمران یحییٰ خان کی اتفاق فونڈری پر دورے کی تصویریں گوگل پرموجود ہیں وہ اتفاق فونڈریز میاں محمد شریف مرحوم کی ملکیت تھی تب نواز شریف نو خیز نوجوان تھے اور سیاست میں نہیں آئے تھے۔ آج میاں نواز شریف اور خاندان سے سوال کیا جاتا ہے کہ دولت کہاں سے آئی؟ فرانس میں محل صدر آصف علی زرداری کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی سے پہلے ملکیت تھی، زمین دار اور سردار تھے۔ آج یوں سمجھا جاتا ہے جیسے محترمہ سے شادی سے پہلے صدر زرداری بغیر ٹکٹ کے ٹرین میں سفر کرتے تھے اُن کی کثیر المنزلہ بمبینو بلڈنگ میں چھٹی منزل پر لاکھوں روپے سے ایک پینٹ ہاؤس ان کی والدہ نے تعمیر کرایا، سینما تب اس دور کی قابل ذکر انڈسٹری تھا جو حاکم علی زرداری نے محض سیاست میں شہر کراچی میں ڈیرہ کے طور پر بنایا۔ آج سمجھا جاتا ہے کہ سب کچھ محترمہ سے شادی کے بعد بلکہ اقتدار کے بعد بنا مگر اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہمارے ہاں آمر ہوں یا جمہوری حکمران اقتدار میں آ کر مالی طور پر بہتری آتے دیکھی گئی۔ یہی صورت حال بیوروکریسی میں آنے بعد، یہی صورت حال کاروبار میں بھی دیکھی گئی مگر باکسر کی ریت کا تھیلا جس پر مکوں کی پریکٹس ہوتی ہے وہ جمہوری حکمران ہی بنتے رہے البتہ سوشل میڈیا کی نئی صورت حال میں آمر بھی نہ بچ پائے۔ اگلے دن مزمل سہروردی تجزیہ فرما رہے تھے کہ جب مالیاتی اداروں کے ملین روپے مقدمات کی صورت اپیلوں میں پھنسے ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ وہ نیچے یعنی ماتحت فورم پر مقدمہ ہار چکے ہیں۔ اگر سہروردی صاحب کو علم ہو کہ کسٹم ٹربیونلز میں فیصلے کیسے ہوتے ہیں تو یہ بات بالکل نہ کہتے۔ میرا بار بار دہرایا جانا والا مطالبہ ہے کہ محکمہ کے بنائے ہوئے مقدمہ کی پہلی ایڈجوکیشن ہی عدالتی آفیسر (سیشن جج) رینک کے آفیسر کو کرنا چاہیے پھر مقدمات کے فیصلہ جات کی نوعیت مختلف ہو گی۔ آج ماں سے سچا پیار پر شوکت خانم بنانے والے کی بات تو کی جاتی ہے، شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین اور ذاتی گرہ سے 50 کروڑ دینے والے کا ذکر نہیں ہوتا کیونکہ اس نے یہ کام سیاست کے لیے نہیں کیا۔ آج میاں نوازشریف اور زرداری کی بدولت دولت مند بننے والے ان سے دولت کا حساب مانگتے ہیں مگر بیوروکریسی، درگاہوں اور دیگر مافیاز سے ڈالروں میں ارب پتی ہونے والوں کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔ آتے ہیں موضوع کی طرف امپورٹر پیسہ لگا کر اشیا درآمد کرتا ہے اور ایف بی آر کے محکمے اس میں کلیئرنس کو دیکھتے اور ڈیوٹی ٹیکسز لیتے ہیں لیکن ان دونوں سے کہیں زیادہ دولت سہولت کار (کسٹم ایجنٹ، ایکسائز ایجنٹ) انکم ٹیکس مشیر کے پاس دیکھی گئی ہے۔ جیسے پٹواری کا زمین سے کچھ لینا دینا نہیں محض کھاتے چڑھانے سے خود زمیندار بن جاتا ہے۔ یہ گتھیاں سلجھانا بہت ضروری ہے۔ لاہور میں سات کنٹینرز پر غیر ملکی درآمد شدہ اشیا جن میں زیادہ تر ممنوعہ اشیا ہیں کی بازگشت سنی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ہوا میں پھرنے والے چار کے ٹولے کے بھوت کی بازگشت بھی سنی گئی۔ جس نے کرپشن، رشوت اور ناجائز کاری کے بل بوتے پر کسٹم آفیسران کو اپنے دروازوں پر تعیناتیاں لینے کے لیے کھڑا کر دیا۔ پنجاب میں ایک دیانتدار اور اہل ترین عاجز انسان جناب محمد صادق کو چیف کلکٹر کسٹم تعینات کیا تو ان کی حیثیت کنول جیسی تھی پھر ان کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کو کیوں تعینات کیا گیا۔ دراصل ساری بساط بچھائی گئی کہ شریف انسان ہیں مداخلت نہیں کریں گے مگر سمجھنے والوں نے غلطی کی وہ دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرتے مگر ناجائز کام علم میں آ جائے تو پھر ان کی موجودگی میں نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی سات کنٹینرز کے ساتھ ہوا۔ ان کے علاوہ لاہور میں سب اس بساط کا حصہ تھے جو چار کے ٹولے نے اعلیٰ حکام سے ملی بھگت کر کے بچھائی۔ وزیر اعظم  نے ایجنسیوں کی رپورٹ پر کارروائی کی جو ابھی باقی ہے۔ یہ کارروائی جاری و ساری رہے گی مگر مجھے حیرت ہے اس میں کسٹم انٹیلی جنس کے سربراہ کو اس پول میں کیوں نہیں بھیجا گیا جس میں بھیجے گئے لوگوں کا تاثر مثبت کے بجائے منفی ہے۔ ہم  نے قانون سازی کی ضرورت شفافیت کی ضرورت پر بہت کالم لکھے۔ میرا یہ یقین ہے کہ میاں شہباز شریف کسی سرکاری آفیسر کی تعیناتی اس بنیاد پر نہیں کرتے جن بنیادوں پر نئے پاکستان کے دور میں ہوا کرتی تھیں۔ پنجاب کے چیف کلکٹر، جنہوں نے سات کنٹینرز کو کسٹم کی تاریخ میں عبرت بنا دیا، کو یہاں سے ہٹا کر کراچی بھیج دینا نامناسب تھا۔ وہ مافیا کے متعلق تادیبی کارروائیوں میں کافی پیش رفت کر چکے تھے۔

26 اپریل کو وزیراعظم کی ہدایات پر ایف بی آر کے اعلیٰ افسران کے تبادلوں کے دو مختلف احکامات جاری ہوئے۔ پہلے میں 12 آفیسران کو او ایس ڈی بنایا گیا جن کو اخبارات نے کرپٹ لکھا اور ویسے بھی وہ سکیورٹی اداروں کی رپورٹس پر تبدیل کیے گئے۔ دوسرے احکامات میں اچھی شہرت والے 13 آفیسران جن میں جناب محمد صادق، جناب محمد حسن رفیق، محترمہ قرۃ العین ڈوگر و دیگر شامل ہیں کو نئی ذمہ داریاں سونپی گئیں البتہ سابق ڈی جی انٹیلی جنس فیض احمد چدھڑ جو عام خیال تھا کہ 12میں شامل او ایس ڈی ہوئے ہیں یا ہونے چاہئیں تھے۔ جناب محمد صادق جو چیف کلکٹر پنجاب ہیں نے ذاتی کوششوں سے لاہور میں سب سے بڑی واردات 7 کنٹینرز جو سمگل کیے جا رہے تھے روکے اور ان کے خلاف اقدامات کیے کہ ان کا بھی تبادلہ بھلے وہ کہیں بڑی اور بہتر ذمہ داری ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ویلیوایشن کراچی کر دیا گیا۔ اگر وہ چند ہفتے مزید پنجاب میں رک جاتے تو کسٹم مافیا کا خاتمہ کر دیتے۔ ایک بے غرض، دیانت دار ترین اور اعلیٰ اخلاق کا پیکر شخصیت ہیں۔ ان تبادلوں میں لاہور سے ان کے تبادلہ کی وجہ سے وضاحت کرنا پڑی کہ وہ اچھی شہرت کے حامل افسران والے گروپ میں شامل ہیں جبکہ دوسرے 12 افسران کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔

تبصرے بند ہیں.