ہم کہاں کھڑے ہیں اور آج ہمیں کس مشکل کا سامنا ہے؟

98

پاکستان اپنے وجود میں آتا ہے پھر ہم سے مشرقی پاکستان چھین لیا جاتا ہے پھر صوبوں اور مرکز کی لڑائی شروع ہوتی ہے پھر کراچی سے لے کر خیبر تک پہلے شہروں میں قتل و غارت کے واقعات سر اٹھاتے ہیں، قومیں جو دنیاوی معراج پر کھڑا ہونے کی جستجو میں ہیں اور ملٹی نیشنل ازم۔۔۔۔۔۔پر رواں دواں ہیں۔ ایک دوسرے پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہی ہیں اور ہم وہیں کھڑے اپنے ہی لوگوں کے دیئے غموں اور دکھوں کے دکھڑوں کو رو رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو اشتعال دلاتے ہوئے مارنے مارنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ نفرت کے پودوں کو پانی دیا، جلتی پر تیل چھڑکا جارہا ہے اور زبانوں کے تالے توڑ دیئے گئے ہیں۔ نسل کا اختلاف، زبان کا اختلاف، محبتوں کا اختلاف، نظریات کا اختلاف، ذات برادری کے درمیان اختلاف، گھروں میں اختلاف، ایک دوسرے کے درمیان بڑھتے اختلافات، پنجاب، بلوچ اختلافات، سندھی مہاجر اختلاف بھوک، افلاس، لڑائی، جھگڑے اور عدم مساوات کی بنتی ٹوٹتی روایات۔

پہلے بنگلہ دیش اب بلوچی اور سندھو دیش کی باتیں صوبائیت کی آڑ میں پاکستان کو بجائے جوڑنے کے توڑنے کی باتیں ۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ میرے پیارے پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آج میرے پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور کرنے والے جو کچھ کر رہے ہیں، کوئی لوٹ رہا ہے، کوئی برباد کر رہا ہے، نوید کی بجائے بری خبر آ رہی ہے۔ اس کے باوجود فیض احمد فیض نے ایک زمانے میں شاید انہی وقتوں کے لیے لکھا تھا۔
غم نہ کر، غم نہ کر
درد تھم جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
ابر کھل جائے گا، رات ڈھل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر
رت بدل جائے گی غم نہ کر……

آج کی سیاست، آج کے حالات، آج کی سوچ، آج کی ٭٭٭ تو کہیں اور ہی طرف لے جا رہی ہے۔ قیدی نمبر 804 کی لگائی آگ ہے کہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اسمبلیوں کے اندر طوفان بدتمیزی برپا ہے، ہاتھ گریبانوں تک پہنچ رہے ہیں، دھینگا مشتیاں، شور و غل، نعرے بازی، نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے، ملک معاشی طوفان سے نکل نہیں پا رہا۔ پاکستان کی بات کوئی کر نہیں رہا اور پھر بقول فیض احمد فیض۔۔۔۔۔۔
یہ غلام امیدوں کی ہمدم
اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت بسجود شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی
کھیتی کے کونوں کھدروں سے
پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر مٹی سینچو اشکوں سے
پھر اگلی رت کی فکر کرو

صبح سے رات گئے ٹی وی سکرینیں زہر اگل رہی ہیں، لہو لہو دکھا رہی ہیں، حادثات بڑھتے جا رہے ہیں، لاشے اٹھانے والوں کے کندھے تھک چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ کہیں ہمارے اعصاب جواب نہ دے جائیں۔ امید نظر نہیں آ رہی۔ بمشکل دھندلا سا ہے، مایوسی کفر ہے مگر پھیلائی جا رہی ہے، آسیں ٹوٹ رہی ہیں، دنیا خون سے رنگی جا رہی ہے، کشمیریوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا ہے، ظلمت کی اندھیری رات میں ان کیلئے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی، اندھیروں میں جگنو بھی شاید سو گیا ہے۔ تبدیلی، انصاف اور قانون کے ڈنکے تو بجائے جا رہے ہیں۔ صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے تو دکھی دکھی باتوں کے ساتھ شام غم ڈھل جاتی ہے۔ دن اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے، کون ٹھیک کرے گا میرے دیس کے بگڑے حالات کو آج پھر مسیحا کی باتیں دہرائی جا رہی ہیں مگر دور دور تک کوئی مسیحا دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔۔۔۔ دعا کے لئے اٹھتے ہاتھ تو دیکھ رہا ہوں۔ دعا قبول ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ کل کے مظلوم آج کے ظالم، آج کے ظالم کل کے مظلوم والی مثال یہاں صادق آ جاتی ہے۔ پری چہرے دستیاب نہیں ہیں۔ شرفاء آگے نہیں آ رہے کہ پگڑیاں اچھالنے والوں سے ڈر اور خوف ہے۔ انقلاب کی باتیں ہو رہی ہیں، انقلاب لانے والے لیڈر نہیں ہیں اور جو لیڈرشپ ہے وہ اقتدار بچانے کی فکر میں ہے۔ ڈوبتی معاشی ناؤ کو کنارے لگانے کی حکومتی کوششیں جاری و ساری ہیں اور دوسری طرف مافیا، سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ جابر اور مصلح کی اس دوڑ میں کون کیا کر جائے۔

اور آخری بات۔۔۔۔۔۔

ہماری عمریں بیتی جا رہی ہیں۔ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ ہم خطرے میں ہیں۔ سر کے بال سفیدی سے بھر گئے، کئی حکمران آئے، کئی چلے گئے، کئی اور آئیں گے وہ بھی چلے جائیں گے۔۔۔۔۔۔ ہم پھر خطرے میں رہیں گے۔ وہ دن کب آئے گا وہ سورج کب طلوع ہوگا۔ جب نظام بدلے جائیں گے، چہرے بدلے جائیں گے، وقت کاماتم اپنے انجام کو پہنچے گا، مسافر منزلوں کو پا لیں گے، نفرتوں کی آگ بجھ جائے گی، خوشحالی کب آئے گی، ویران کھیت کب ہریالے ہوں گے۔
مگر مجھے امید ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے۔۔۔۔۔۔ میرا دل کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ میری موجودہ نسل سوچ رہی ہے کہ۔۔۔۔۔۔ پلوں سے پانی ابھی گزرا نہیں ۔۔۔۔۔۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

تبصرے بند ہیں.