ریاستی رِٹ کا مسئلہچ

22

ریاستی رٹ کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے، ریاستی ادارے کام کر بھی رہے ہیں، خوب کام کر رہے ہیں۔ پاکستان اگر دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی کے خلاف امریکی عالمی جنگ سے بخیروخوبی نکل آیا ہے تو یہ کمال نہیں ہے ویسے بظاہر تو امریکی اتحادی، ناٹو اور ایساف کی افواج افغانستان سے نکلی ہیں امریکہ جو طالبان کو ’’چوہے‘‘ کہتا تھا انہی کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا۔ کسے نہیں معلوم کہ طالبان کسی طور بھی امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے تیار نہیں تھے امریکہ جب بھی مسئلہ افغانستان حل کرنے کے لئے مذاکرات کی اہمیت کا ذکر کرتا تو طالبان جواب دیتے کہ مسئلہ امریکی اتحادی افواج کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے باعث پیدا ہوا ہے امریکی اتحادی افواج اپنے اپنے ملک واپس چلی جائیں، افغانستان سے نکل جائیں، افغانستان مسئلہ حل ہو جائے گا۔ طالبان نے ایسا ثابت بھی کر دکھایا۔ امریکی ترلے منتیں کرتے رہے کہ مذاکرات ہونے چاہئیں ویسے امریکی پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے امریکی قائدین بارہا اعلان کر چکے تھے کہ افغانستان میں عسکری فتح ممکن نہیں ہے پشتونوں سے جنگ جیتنا ممکن نہیں ہے امریکیوں نے یہ سبق سوویت افواج کے خلاف برسرپیکار رہنے والے مجاہدین سے سیکھا تھا۔ افغان مجاہدین نے دنیا کی دوسری بڑی عسکری قوت کو ناکوں چنے چبوا کر 1989 میں فوجی شکست سے دوچار کر دیا تھا، اشتراکی افواج کی اپنی 70 سالہ تاریخ میں پہلی شکست تھی اور روسی استعماریت کی پانچ سو سالہ تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ روسیوں نے کسی علاقے پر قبضہ کیا ہو اور پھر اسے چھوڑا بھی ہو۔ ماسکووی قصبے سے شروع ہونے والی روسی پھیلائو کی پانچ سو سالہ تاریخ کا سبق یہی تھا کہ وہ جب کسی علاقے پر قابض ہو جاتے تو اسے اپنے اندر جذب کر لیتے، مقبوضہ علاقے کا جغرافیہ ہی گم کر دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب 24 دسمبر 1979 کی رات اشتراکی افواج دریائے آمو کراس کر کے افغانستان میں داخل ہوئیں تو امریکہ نے برملا اعلان کیا کہ اب افغانستان بھی بھولی بسری داستان بن جائے گا کیونکہ روسیوں کی پانچ سو سالہ تاریخ کا یہی سبق تھا۔

دوسری طرف پشتونوں کی دو، اڑھائی ہزار سالہ معلوم تاریخ کا سبق ہے کہ انہوں نے کبھی کسی جارح کی بالادستی قبول نہیں کی۔ گزشتہ سے پیوستہ صدی میں انہوں نے برطانیہ عظمیٰ کو اس وقت عسکری ہزیمت سے دوچار کیا جب اس کی دنیا میں پھیلی ہوئی مقبوضات پر سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ پھر افغانوں نے گزری صدی کے آخر میں اشتراکی افواج کو شکست دے کر اپنی ہزاروںسالہ روایت کو زندہ رکھا۔ 2001 میں سانحہ 9/11 کے بعد جب امریکہ ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا تو دنیا سوچنے لگی کہ اب کیا ہو گا۔ دنیا کی سپریم طاقت اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر قبضہ کر چکی اور طالبان پیچھے ہٹنے لگے امریکی صدر جارج بش نے اسی لئے انہیں چوہے کہا کہ یہ اپنی کمین گاہوں میں چھپنے لگے تھے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی حتیٰ کہ امریکی اتحادی افواج نے اپنی چھائونیاں قائم کر لیں۔ اپنا قبضہ پکا کر لیا۔ افغانوں نے تاثر یہی دیا کہ وہ ڈر کر چھپ گئے ہیں لیکن یہ ان کا صدیوں پرانا طریقہ جنگ ہے کہ وہ دشمن کو اندر داخل ہونے اور قابض ہونے تک کچھ نہیں کہتے جب وہ ایسا کر لیتا ہے تو پھر گوریلا جنگ کے ذریعے جس میں وہ طاق بھی ہیں اور مشاق بھی، دشمن کو چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر لہولہان کرتے اور بالآخر ہلاک کر دیتے ہیں۔ امریکیوں کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا حتیٰ کہ امریکی یہاں سے نکلنے کی منصوبہ سازی کرنے لگے انہیں واپسی کا باعزت راستہ درکار تھا جو انہیں مذاکرات کے ذریعے ہی مل سکتا تھا پاکستان نے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں سفارتی و سیاسی اثرورسوخ استعمال کیا۔ امریکی انہی مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کے بعد یہاں سے دم دبا کر بھاگے اور کابل پر طالبان کی فتح کا پرچم لہرانے لگا۔ اس فتح کا جشن منانے میں ہم بھی شریک ہوئے کہ چلو اب افغانستان ہمارے خلاف دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بنے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پاکستان ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے نشانے پر ہے۔ ہماری ریاست کی رٹ کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔

ریاست نے سیاسی منظرکشی کرتے ہوئے کسی ایک کو رخصت کرنے اور دوسرے کو اقتدار میں لانے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری سیاست افراتفری کا شکار ہے آئین پر عمل درآمد کو کوئی اہمیت حاصل نہیں رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت کا تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں خاتمہ ایک آئینی و قانونی طریقے سے کیا گیا لیکن عمران خان اسے امریکی سازش کے طور پر پیش کرتے رہے۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت اور اس کے بعد کیئرٹیکر حکومت نے قومی اور شخصی معیشت کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی ہماری تاریخ حاضرہ کا ایک اہم باب ہے اور جس طرح موجودہ حکومت الیکشن 2024 کے نتیجے میں قائم ہوئی اس سے بھی ریاستی رٹ کی کمزوری کا تاثر پیدا ہوتا ہے اس بارے میں شاید ہی دو آرا ہوں گی کہ عمران خان جیل میں بیٹھ کر قومی سیاست پر چھایا ہوا ہے ہماری ریاست اس سے نمٹنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ ابھی تک بڑے بڑے کیسز کے فیصلے نہ ہونا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ 9 مئی کے ملزمان ابھی تک مجرمان کے کٹہرے میں کھڑے نہیں کئے جا سکے ہیں۔ ریاست کا قائم کردہ سیاسی سیٹ اپ معاملات پر اپنی گرفت قائم نہیں کر پایا ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی جیسے بڑے اتحادیوں میں بھی حقیقی اتحاد قائم نہیں ہو سکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن حکومت و ریاست مخالفت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی عمران خان کے ساتھ اشتراک عمل کی کاوش کر چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن، عمران خان کے ساتھ مل کر تحریک چلانے کی بابت بھی معاملات آگے بڑھا سکتے ہیں۔ عمران خان کا خوف، پی ٹی آئی کی عوامی پذیرائی کا خوف، ریاست و حکومت کے اعصاب پر طاری نظر آ رہا ہے۔ نوازشریف بھی ناراضی کا تاثر دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ میں دراڑ اب بالکل واضح ہو کر سامنے آ چکی ہے۔

ریاست، کار سیاست میں مکمل طور پر ملوث بھی ہے اور عمل دخل نہ دینے کا اعلان بھی کر چکی ہے۔ ریاست کے خلاف بیانیے پھل پھول رہے ہیں جن عہدوں کے بارے میں تنقید کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ان کے بارے میں کھلے عام باتیں ہو رہی ہیں۔ ان کے طرزِ فکروعمل کو بھرپور انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں معاشی بدحالی نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں معاشی نمو میں کمی کے باعث روزگار کے مواقع کم سے کم ترہوتے چلے گئے ہیں جس کے باعث بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور مستقبل سے مایوسی نے بھی عوام کے دلوں میں بدگمانی اور نفرت کے جذبات کو جنم دیا ہے پہلے پہل جو باتیں کبھی کبھار اور ڈھکے چھپے انداز میں کی جاتی تھیں۔ اب کھلے عام، نڈر انداز اور اونچے سروں میں کی جانے لگی ہیں تنقید اور بھرپور تنقید اس پر جھوٹے بیانیے نے معاملات میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ ریاست کی رٹ کمزور سے کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔

تبصرے بند ہیں.