اپریل کی 21 تاریخ ملک بھر میں ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ حسب روایت حکام بالا کی جانب سے دن بھر انٹرنیٹ بند رکھنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ یاد رہے 8 فروری کو منعقدہ عام انتخابات کے موقع پر صبح 8 بجے سے لیکر رات 11 بجے تک موبائل کال اور موبائل انٹرنیٹ سروس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ مقبول عام سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹویٹر یعنی ایکس پر عام انتخابات سے پہلے اور آج تک غیر علانیہ پابندی عائد ہے اور پاکستانی عوام حتیٰ کہ ایوان اقتدار میں براجمان کئی اہم شخصیات کے ایکس اکائونٹس مختلف وی پی این کا سہارا لے کر چلائے جا رہے ہیں۔ عوامی رابطہ کی اس ویب سائٹ پر غیر علانیہ پابندی کے خلاف ملک بھر کی ہائیکورٹس میں متعدد درخواستیں جمع کرائی جا چکی ہیں۔ مگر افسوس ابھی تک کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ یاد رہے ایکس پر غیر علانیہ پابندی کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی جا رہی ہے۔ جو یقینا جگ ہنسائی کا موجب بن چکی ہے۔ ضمنی انتخابات کے دن انٹرنیٹ کی پابندی کا نوٹیفیکشن انتہائی مضحکہ خیز تھا، یعنی جس ضلع کے کسی ایک صوبائی/ قومی اسمبلی حلقہ میں انتخاب ہو گا صرف اس حلقے کا انٹرنیٹ بند کرنے کے بجائے پوری تحصیل یا ضلع کے لیے انٹرنیٹ سروس معطل کی جائے گی۔ جیسا کہ ضلع شیخوپورہ کے ایک صوبائی حلقہ PP139 میں ضمنی انتخاب تھا مگر افسوس چار قومی و آٹھ صوبائی حلقوں پر مشتمل پورے ضلع کی آبادی کے لیے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 19کے مطابق اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اسکے حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم کے ارتکاب یاس اسکی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائدکردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق حاصل ہو گا اور پریس / میڈیا کی آزادی ہو گی۔ جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین آرٹیکل 19میں درج قوانین / پابندیوں کے تابع پریس/ میڈیا کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ پھر امن عامہ اور ملکی سلامتی یا دفاع کے نام پر حکومت وقت پاکستانی عوام کے لیے رابطوں کی سہولت کو معطل کیوں کرتی ہے؟ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا ویب سائٹس، موبائل فون ایسی پابندیوں پر حکومت وقت کی نیت پر شک نہ بھی کیا جائے مگر زندگی کے ہر معاملہ کی ہر بات کے دو پہلو نکلتے ہیں، جیسا کہ انٹرنیٹ پر پابندی سے کیا ہم پوری دنیا کو یہ تاثر نہیں دے رہے کہ انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی بدولت قیاس آرائی سے بننے والی صورتحال کو کنٹرول کرنا ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بس کی بات نہیں رہی؟ خدانخواستہ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے اتنے ہی کمزور ہو چکے ہیں جو کسی بھی امن عامہ کی صورتحال پر قابو نہ پا سکیں گے؟ کیا امن عامہ کے نام پر موبائل کال سروس اور انٹرنیٹ سروس پر لگائی جانے والی پابندیاں قانون نافذ کرنے اداروں کی صلاحیت پر سوالیہ نشان اُٹھانے کے مترادف نہیں؟
ابھی حال ہی میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے سینئر رہنما نے پاکستانی میڈیا پر پاکستان کے عظیم برادر دوست ملک سعودی عرب کی لیڈرشپ کے خلاف سنگین بیانات و الزامات عائد کیے۔ جبکہ سیاسی جماعت نے اپنے عہدیدار کے سعودی عرب کے خلاف دیئے گئے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار بھی کیا مگر دوسری جانب یہ سیاسی رہنما سعودی لیڈرشپ کے خلاف دیئے گئے بیانات پر ابھی تک قائم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19اور آرٹیکل 40 کی سنگین خلاف ورزی کی پاداش میں ٹی وی میڈیا چینلز اور خصوصاً اس سیاسی رہنما کو دوست ملک سے تعلقات خراب کرنے کی سازش پر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے مثال قائم کی جائے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ یہاں آئین و قانون میں درج پابندیوں کا سامنا صرف اور صرف کمزور عوام ہی کو کرنا پڑتا ہے مگر طاقتور اشرافیہ آئین و قانون کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے کے باوجود بھی آزاد گھومتی رہتی ہے۔
اقتدار کے ایوانوں میں براجمان اعلیٰ ترین حکومتی حکام کو ٹویٹر / ایکس پر ٹویٹ کرنے کے لیے VPN کا استعمال کرتے وقت کچھ تو شرم محسوس ہوتی ہو گی۔ پوری دنیا اور پاکستانی عوام حیران و پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ آخر ایک ویب سائٹ پر پابندی سے ریاست پاکستان کی جگ ہنسائی کے علاوہ کونسی خدمت کی جاری ہے؟ عرصہ دراز سے مذہبی و قومی تہواروں خصوصاً عیدین، یوم آزادی وغیرہ پر موبائل سروس اور انٹرنیٹ سروس پر مکمل یا جزوی پابندیاں پاکستانی عوام کا مقدر بن چکی ہیں۔ عوام الناس کو عام ایام کی نسبت مذہبی و قومی تہواروں پر اپنے عزیز و اقربا کیساتھ روابط کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ عین انہی دنوں میں رابطے منقطع کر دیئے جاتے ہیں۔ ایک طرف حکومت وقت آئی ٹی سٹی کے قیام کے اعلانات کرتی دکھائی دے رہی ہے دوسری جانب انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولت پر پابندیاں عائد کر رہی ہے۔ آئی سٹی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کے لیے ہم کیا کشش پیدا کر رہے ہیں؟ فیصلہ سازوں کو ہوش کے ناخن لینے کی اشد ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال کر کے ریاست مخالف بیان بازی اور شدت پسندی کو فروغ دینے والے عناصر کے خلاف ریاستی اداروں کر متحرک ہو کر انکا قلع قمع کرنا چاہیے نہ کہ ویب سائٹس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں۔ انٹرنیٹ پابندیوں کے بجائے انٹرنیٹ کے غلط استعمال پر سخت ترین سزائوں کا اہتمام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مزید تبصرہ کے بجائے بس یہی کہنے کو جی چاہ رہا ہے کہ ناچ نہ جانے انٹرنیٹ ٹیڑھا۔
تبصرے بند ہیں.