ایرانی گیس، معاہدہ اورمضمرات!

43

حکومتوں کے مابین تعلقات باہمی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اس میں مسلمان ملکوں اور غیر مسلموں کے ملکوں کی تخصیص نہیں ہوتی ۔ غیر مسلم چین مسلمانوں کے ملک عراق کی نسبت پاکستان کے زیادہ قریب ہے جبکہ پڑوسی اور مسلمانوں کے ملک ایران کے ساتھ اگرچہ کھلی دشمنی نہیں ہے مگر بہت قریبی دوستی بھی بعض صورتوں میں نہیں ہے دونوں ملکوں کے تعلقات گرمجوشی کے حوالے سے معدود جزر کا شکاررہے ہیں۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی رواں ماہ پاکستان آئیں گے تاہم ابھی باقاعدہ شیڈول کا اعلان نہیں ہوا، اس دورے میں بہت سے موضوعات ومعاملات پر تبادلہ خیال ہوگا لیکن میرے نزدیک اس دورے کا اصل ایجنڈا ایران سے گیس معاہدہ پرپیش رفت ہے اور اس پیش رفت کے امکانات اس لیے قوی ہیں کیونکہ یہ معاہدہ کرنے والے آصف زرداری اب دوبارہ پاکستان کے صدر ہیں۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ پانچ سالہ مدت صدارت میں یہ معاہدہ طاق نسیاں میں رہا مدت صدارت ختم ہونے سے چند روز قبل وہ ایران سے یہ معاہدہ کر گئے تھے۔

پاکستان ، ایران گیس معاہدہ کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے پذیرائی کا طوفان اٹھایا جارہا ہے عوام کوملک میں گیس کی قلت کے خاتمہ اور سستی گیس مہیا ہونے کی نویدسنائی جارہی ہے یہ تو جب ایرانی گیس پاکستان آجائے گی تب ہی پتہ چلے گا البتہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے دستیاب معلومات کے حوالے سے میںذاتی طورپر کچھ تحفظات کا شکار ضرور ہوں۔ کہا جاتا ہے بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان ایران کا دورہ کیا تب ایران نے پاکستان کو 8ڈالر ایم ایم بی ٹی یو گیس فراہم کرنے کی پیشکش کی جو بینظیر بھٹو نے یہ پیشکش قبول کرنے سے قبل پاکستان میں متعلقہ ماہرین سے رابطہ کرکے مشاورت کی اور مہنگی پیشکش جان کر قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی تاہم آصف زرداری ایران کے دورے پر گئے اور ایران سے 8ڈالر کی بجائے 12ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کرآئے ۔ اور بینظیر بھٹو کی طرح ماہرین سے مشاورت بھی ضروری نہیں سمجھی تھی ۔ یہ معاہدہ جن شرائط کی بنیادپر کیا گیا ہے ان کا جائزہ لیا جائے تو فیض یابی کے حوالے سے اس کا 90فیصد توازن ایران کے حق میں محسوس ہوتا ہے اس کیلئے جو پائپ لائن پاکستان کے اندر بچھائی جائے گی کا ٹھیکہ ایران کی تعمیراتی فرم ”تدبیر“ کو دیا گیا ہے حالانکہ جنرل ایوب خان کے دورسے سوئی کے مقام سے ملک کے طول وعرض پر پاکستانی ماہرین کے ذریعہ بچھائی جانے والی پائپ لائنوں میں ایسے نقائص کی نشاندہی نہیں ہوئی کہ ان کی بجائے غیر ملکی کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں۔

ایران کو گیس کے معاوضہ کی ادائیگی ڈالر کی صورت میں جسے لندن بینک سے انٹرلنک کیا گیا ہے یعنی جس شرح سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوگا اسی شرح سے ایرانی معاوضہ بڑھتا چلا جاے گا۔ حالانکہ ایک برادر ملک ہونے کا تقاضا تھا کہ معاہدہ باہمی کرنسیوں کی بنیاد پر ہوتا اور ”مرگ امریکہ“ کی سوچ رکھنے والا ایران ”مرگ برڈالر“ کا مؤقف اختیار کرکے اپنی حدتک ڈالر کو ضعف پہنچاتا، اس سے پاکستان اور ایران کی باہمی تجارت کا گراف بھی کہیں اوپر جاسکتا تھا۔

ایران کے معاہدہ کاروں نے امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کواپنے مفاد میں بروئے کار لانے کیلئے معاہدہ میں یہ شق بھی شامل کرالی کہ پاکستان اپنے علاقے میں جتنی مدت گیس پائپ لائن بچھانے میں ناکام رہے گا روزانہ کی بنیاد پر 2ملین ڈالر بطور جرمانہ ادا کرے گا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان تادم تحریر ایران سے ایک پیسے کی گیس حاصل کئے بغیر ایران کا 18ارب ڈالر کا مقروض ہو چکا ہے اور جب تک گیس پائپ لائن نہیں بچھائی جائے گی اس قرض میں آکاس بیل کی طرح اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ اس معاہدہ میں یہ شق بھی شامل ہے کہ پاکستان کی جانب سے کسی خلاف ورزی کی صورت میںایران کو معاملہ عالمی عدالت میں لے جانے کا حق حاصل ہوگا۔ اس معاہدہ کے بتائے گئے متن میں جس طرح پاکستان کی جکڑ بندی کا تاثر موجود ہے اس طرح ایران کسی کچے دھاگے سے بھی بندھا ہوا نظر نہیں آتا۔

سوال پیدا ہوتا ہے اس معاہدہ کو شرف قبولیت بخشتے وقت کیا آصف زرداری اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد شدہ پابندیاں توڑنے کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ تو انہوں نے جرمانے کی شق کو ختم کیوں نہیں کرایا۔

وزیراعظم شہباز شریف سے گزارش ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ ہنگامی اجلاس بلاکر یہ معاہدہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جائے تاکہ اس کا سیر حاصل جائزہ لے کر پاکستان کے مفاد کا دفاع کیا جاسکے ۔ اس معاہدہ سے متعلق کوئی بھی تنازعہ عالمی عدالت میں لے جانے کی بجائے دوطرفہ مذاکرات سے حل کرنے کی شق شامل کی جائے۔ پاکستانی علاقے میں پائپ لائن ایرانی کمپنی ”تدبیر“ کی بجائے سدرن سوئی گیس کمپنی اور نادرن سوئی گیس کمپنی کے ماہر انجینئروںکے ذریعہ بچھائی جائے جو اس کا وسیع عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ معاہدہ سے جرمانے کی شق ختم کرنے کے ساتھ ساتھ 18ارب ڈالر کی خطیر رقم کی عدم ادائیگی کا سمجھوتہ کیا جائے کیونکہ یہ وہ رقم ہے جس کے عوض پاکستان نے ایک پیسے کی گیس حاصل نہیں کی ہے یہ تو ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑابارہ آنے“ جیسی صورت ہے۔

ایران کیلئے آصف زرداری کے قلبی جذبات اپنی جگہ لیکن وہ اس ملک کے مفاد کا بھی تھوڑا خیال کریں جس کی بدولت انہیں ریاست کے اعلیٰ ترین منصب کا دوسری بار اعزاز نصیب ہوا ہے جس میں وہ بلاول کے بعد آصفہ کے وزارت عظمیٰ کی مسند پر فروکش ہونے کے خواہش مند ہیں۔ اس ملک نے آصف زرداری کوجو کچھ دیا اس کا خیال کریں اور یہ جوکچھ عملاً  ”کچھ“ سے بہت زیادہ ہے۔ اس معاہدہ پر عملدرآمد کیلئے ڈیڑھ بلین ڈالر میں سے 50ملین ڈالر ایران دوفیصد سود پر حصہ ڈالے گا جبکہ ایک بلین ڈالر عوام کے ٹیکسوں سے وصول کی جائے گی۔ بلوچستان میں پائپ لائن کے چوبیس گھنٹے امکانی خطرات کے باعث مستقل انتظامات کا خرچ الگ ہے کیا یہ رقم گیس کے بلوں کی صورت عوام سے وصول کی جائے گی۔

ایران سے گیس معاہدہ ضرور ہوناچاہئے لیکن فیض رسانی کا پلڑا بھی مساوی ہونا چاہے۔ متعلقہ ماہرین معاہدہ کی شرائط کا جائزہ لے کر حقیقت عوام کے سامنے لائیں تاکہ اگر مجھ جیسے لوگوں کے تحفظات خلاف حقیقت معلومات پر مبنی ہیں تو دور ہونے چاہئیں۔

یہ معاہدہ دراصل ایران اور بھارت کا مشترکہ منصوبہ تھا اور پائپ لائن کیونکہ پاکستان کی سرزمین سے ہی جاسکتی تھی اس لیے پاکستان کو بھی شریک کرلیا گیا کچھ عرصہ بھارت امریکی پابندیوں کابہانہ بناکر منصوبے سے الگ ہوگیا حیرت انگیز طور پر ایران نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا امریکہ نے پابندیوں کے باوجود بھارت کو ایران سے تیل درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔

پاکستان میں اپنی شیعہ برادری سے بھی درخواست ہے انہیں اور ان کی آئندہ نسلوں کو یہیںرہنا ہے پاکستان کسی لحاظ سے مالی دباؤ کا شکار ہوا تو صرف سنی برادری ہی نہیں وہ بھی برابر بھگتیں گے اس لیے ملکی مفاد پر جذبات کا غلبہ نہ ہو تو بہتر ہے۔

مجھے نہیں لگتا کہ وزیراعظم شہباز شریف یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے یا اس پر نظر ثانی کی راہ ہموار کرسکیں گے کیونکہ ان کی حکومت جناب آصف زرداری کی خوشنودی کے سینگوں پر دھری ہے ۔ ایران برادر ملک ہے تو اس سے برادر یوسفؑ کی بجائے برادر موسیٰؑ کے کردار کی توقع غیر فطری نہیں ہے۔ یقین ہے عزت مآب ابراہیم رئیسی کی تشریف آوری ”آمدنت باعث آبادی ما“ ثابت ہوگی۔ ”صد ہزار بار آید، یک ہزار بار برو“ اور ”بہ قلب صمیم، بریں، مژدہ گر جان فشانم روا است“

تبصرے بند ہیں.