جرائم کی بیخ کنی میں مصروف افسر

67

میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز بطور کرائم رپورٹر کیا ۔بعدازاں ہیلتھ ودیگر بیٹس کے لئے بھی کام کیا ۔ بطور کرائم رپورٹر ایک طویل عرصے تک فرائض سر انجام دیتا رہا اور ان دنوں میں محکمہ پولیس کے نظام کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ شاید میں واحد ایسا کالم نگار ہوں گا جس نے محکمہ پولیس میں اصلاحات کے لئے کھل کر لکھا اور سب سے زیادہ لکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا لکھا اور بولا ہوا اثر کر رہا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیس ملازمین کی حق تلفیوں ، تھانے کی بوسیدہ عمارتوںکے باہر پھٹے پرانے ٹینٹوں میں رہائش پذیر عملہ،موسموں کی سختیاں، مچھروں کی بہتات اور غلیظ واش رومز، اپنے کالموں میں بار ہا ذکر کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ تھانہ کلچر میں اصلاحات آتی رہیں وہاں تھانوں کی بوسیدہ عمارتوں کو بہتر بنانے اور پولیس ملازمین کے حالات کو بہتر بنا نے کی افسران کی کاوشیں ثمر یاب ہوئیں ۔
قارئین کرام! میں سمجھتا ہوں کہ تمام تر سہولیات حاصل ہونے کے بعد پولیس کے جوانوں کو پہلے سے کئی زیادہ بہتر طریقے سے اپنے فرائض سر انجام دینے کی ضرورت ہے ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ افسران بالخصوص آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی جانب سے دی گئی ریکارڈ سہولیات اور پروموشنز کے ساتھ یہ سب عام عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم سے ممکن ہوا۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ افسران سے لیکر ملازمین تک عام عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف دینے کے لئے کمر بستہ ہوں اور عام عوام کا اپنے اوپر کئے گئے احسان کا قرض چکایا جائے۔ یہ جب ہی ممکن ہے کہ
صرف اور صرف اللہ کا خوف دل میں پیدا کرتے ہوئے اور اسی سے بدلے کی امید رکھتے ہوئے عام لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل ہوا جائے ۔ لیکن! مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنا پڑ رہی ہے کہ عوام کی اتنی بڑی قربانی اور آئی۔جی پنجاب کی فراخدلانہ کاوشوں کے باوجود بھی کئی افسران صرف اور صرف بیانوں اور دعووں سے آگے نہیں بڑھ رہے جس میں بالخصوص لاہور میں تعینات سی۔آئی۔اے اور انوسٹی گیشن ونگز میں تعینات افسران و ملازمان ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور میں جرائم کا گراف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور باغوںاور پرندوں کا شہر، اب جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ حالیہ دنوں میں بطور ڈی۔آئی۔جی انوسٹی گیشن تعینات ہونے والے درویش صفت افسر ذیشان اصغر ، انوسٹی گیشن ونگ میں موجود کالی بھیڑوں کا سخت احتساب کریں گے اور انوسٹی گیشن ونگ کے ماتھے پر کالک ملنے والے ایسے درندہ صفت لوگوں کو خلاف ایکشن لیتے ہوئے ضرور یہ کالک مٹائیں گے۔
قارئین کرام! جہاں ایسے رنگ باز افسروں کی وجہ سے آئی،جی پنجاب کی سنجیدہ کاوشیں ماند پر رہی ہیں وہاں ایس۔پی صدر ،سدرہ خان جیسی نڈر، بے باک اور ہمت والی خاتون پولیس افسر کی وجہ سے لوگوں میں احساس تحفظ پیدا ہوا اولاہور کی صدر ڈویژن جو کرائم کے حوالے سے نمبر ون پر ہوتی تھی اب سب سے پیچھے ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ خاتون افسر تمام مرد افسروں کی بھی پیچھے چھوڑ گئی ہیں ۔ ان کی کاوشوں کی وجہ سے آئی۔جی پنجاب کے روشن اقدامات دکھائی دیتے ہیں جو دیگر افسران کی حرکتوں کی وجہ سے ماند پڑتے جا رہے تھے ۔ صدر ڈویژن پولیس کی جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ماہ مارچ کی کارکردگی رپورٹ کے مطابق سنگین و مختلف جرائم میں ملوث ملزمان،مفرور اشتہاریوں سمیت 390 ملزمان گرفتارہوئے ۔عادی مجرمان کے خلاف کریک ڈاؤن میں 140 ملزمان اور 1050 عدالتی اشتہاری مجرمان بھی گرفتارکیے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت لاؤڈ سپیکر،حساس مقامات،کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی پر 672 ملزمان گرفتارجبکہ سنگین جرائم میں ملوث66 گینگز کے136 ملزمان گرفتار اور گینگز کے قبضہ سے 114 موٹر سائیکلیں، 2 رکشہ، 94 موبائل، 40 لاکھ روپے سے زائد نقدی برآمد اور تقریباً 7 کروڑ سے زائدکی ریکور ی کرتے ہوئے مالکان تک پہنچائی گئی ہے۔ ناجائز اسلحہ کے خلاف کریک ڈاؤن میں 434 ملزمان گرفتار ہوئے جبکہ ملزمان کے قبضہ سے 07 کلاشنکوف،325 پستول و سیکڑوں گولیاں برآمد ہوئیں۔ معاشرے کے ناسور، منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 345 ملزمان گرفتار کیے گئے اور ملزمان کے قبضہ سے 223 کلو گرام چرس، 03کلوگرام آئس،2878 لٹر شراب برآمدکی گئی۔ پتنگ سازوں،پتنگ بازوں سمیت 175 ملزمان سے ہزاروں پتنگیں اور 739 چرخی/پنی ڈور برآمدکی گئی جبکہ قمار بازی کے خلاف کارروائیوں میں 102 ملزمان کے قبضہ سے داؤ پر لگی لاکھوں روپے کی رقم برآمدکی گئی۔ گداگری ایکٹ، ون ویلنگ، ہوائی فائرنگ، آتش بازی کی خلاف ورزی پر 155 ملزمان گرفتارکیے گئے اور 3007 افراد کے خلاف انسدادی کارروائی عمل میں لائی گئی۔حقیقی معنوں میں دل میں خوف خدا رکھے، لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کاجذبہ رکھتے ہوئے جرائم کی بیخ کنی میں مصروف ایسے آفیسر، شاباش کے مستحق ہیں۔

تبصرے بند ہیں.