اداروں کی حدود کا تعین کریں

28

پاکستان کے معاملات میں اداروں کے اختیارات کا عدم توازن کوئی نئی بات نہیں۔ ایک طرف سیاستدان، پارلیمنٹ اور انتظامیہ مختلف اداروں کی جانب سے اپنے معاملات میں بے جا مداخلت پر نالاں رہتے ہیں تو دوسری طرف مختلف اداروں میں بھی ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کی شکایات تسلسل کے ساتھ آتی رہتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کا آئین حکومت اور تمام تر اداروں کی حدود و قیود کا واضح تعین کرتا ہے لیکن پھر بھی جس کا جب اور جیسے دل چاہے آئین کی تشریح اپنی سوچ اور مفادات کے مطابق کر لیتا ہے۔ جیسے کسی گھر میں بڑا بھائی اگر کسی بھی وجہ سے نالاں ہو جائے یا ناانصافی پر اتر آئے تو پھر ایک دفعہ تو چھوٹے بہن بھائیوں کی درگت بن ہی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح طاقت ور ادارے اکثر و بیشتر دیگر اداروں کے کان مروڑتے رہتے ہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل لاہور شہر کے تھانہ گلبرگ جو لبرٹی مارکیٹ سے ملحقہ ہے پر حساس ادارے کے جوانوں نے بھر پور حملہ کیا اور وہاں موجود پولیس اہلکاروں کی جم کر پٹائی کی اور پھر بہت اطمینان سے جہاں سے آئے تھے وہیں واپس چلے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب کسی بھی خبر کو جاننے کے لیے اگلے دن کی اخبار کا انتظار کرنا پڑتا تھا یعنی اس وقت نیوز چینلز کی چوبیس گھنٹے سروس اور سوشل میڈیا جیسی سہولیات دستیاب نہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور جیسے شہر میں رونما ہونے کے باوجود اس واقعہ کو اتنی اہمیت نہ مل سکی جتنی چند روز قبل بہاولنگر میں پیش آنے والے اس واقعہ کو ملی۔ اس واقعہ میں مذکورہ لاہور واقعہ کا ایکشن ری پلے پیش کیا گیا۔ یہاں بھی حساس ادارے کے کمانڈوز نے مبینہ طور پر پولیس سٹیشن پر حملہ کیا اور پولیس اہلکاورں کو خوب زدوکوب کیا ۔
اگرچہ اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت نے ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے اور فوج کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ اختیارات کا
غلط استعمال کرنے والوں کا تعین کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت اور فوجی ترجمان کی جانب سے اس قسم کے اعلانات خوش آئند تو ہیں لیکن مسئلہ کا حل صرف ذمہ داروں کا تعین کرنا یا ان کے خلاف کسی بھی قسم کا محکمانہ ایکشن لینا نہیں بلکہ ایک ایسی صورتحال پیدا کرنا ہے کہ جس میں آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے ۔ بلاشبہ بہاولنگر واقعہ کی وجہ سے بین لاقوامی سطح پر پاکستان کی کافی جگ ہنسائی ہوئی ہے اس لیے دیکھنا یہ ہو گا کہ آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اب بھی کوئی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں یا نہیں۔
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اداروںکا ایک پیچیدہ جال ہے، ہر ایک کے اپنے اختیارات، ذمہ داریاں اور مفادات ہیں۔ اس فریم ورک کے اندر ادارہ جاتی یا ایک ادارے کی دوسرے کے معاملات میں مداخلت ایک نا ختم ہونے والا موضوع ہے۔ اگست 1947 میں اپنی آزادی کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان نے مختلف قسم کی ادارہ جاتی مداخلتوںکا تجربہ کیا ہے، جس میں فوجی بغاوت سے لے کر جوڈیشل ایکٹیوزم اور ایگزیکٹو اوور ریچ شامل ہیں۔ یہ مداخلتیں اکثر طاقت کی کشمکش، حکمرانی کی ناکامیوں اور سماجی و اقتصادی چیلنجوں جیسے عوامل کی وجہ سے ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان میں ادارہ جاتی مداخلت میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، کمزور جمہوری اداروں اور آمریت کی تاریخ نے مداخلت پسندانہ رجحانات کے لیے سازگار ماحول پیدا کیے رکھاہے۔پاکستان میں ادارہ جاتی مداخلت میں متعدد اداکار شامل رہتے ہیں، جن میں فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ ادارے اکثر ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ آئینی ترامیم، عدالتی فیصلے، انتظامی حکمنامے، اور فوجی قبضے وغیرہ۔غرض ادارہ جاتی مداخلت پسندی کا پھیلاؤ پاکستان میں حکمرانی اور جمہوریت کے لیے اہم چیلنج ہے۔ اس قسم کی صورتحال کا نتیجہ اکثر ملک کے معاملات چلانے میں ایک مستقل اور مسلسل پالیسی قائم رکھنے میں تعطل کا باعث بنتا ہے، جس سے سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کرنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی رہتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت بھی بے شمار شکایات موجود ہیں کہ جن میں الزام لگایا جاتا ہے کہ بعض ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔عین ممکن ہے کہ اس قسم کی ادارہ جاتی مداخلت، وقتی طور پر، کسی حد تک بحرانوں یا چیلنجوں کا حل پیش کر سکتی ہو، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قسم کی صورتحال کے طویل مدتی نتائج پاکستان میں جمہوریت اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ مداخلت پسندی کے رجحانات اداروں پر عوامی اعتماد کو کمزور کر رہے ہیں اور ایک شفاف حکمرانی کے ڈھانچے کے قیام میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
سکیورٹی اداروں کے درمیان کسی بھی سطح پر تصادم یقینا ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے اور اس سے بھی زیادہ تفکر کی بات یہ ہے کہ افریقہ کے کچھ علاقوں کے علاوہ صرف پاکستان میں ہی اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔ حکومت اور فوجی قیادت کو اس واقعہ کو صرف وقوعہ کے طور پر نہیں لینا چاہیے بلکہ ان اسباب پر انتہائی سنجیدگی اور گہرائی سے غور کرنا چاہیے کہ جن کی وجہ سے اس قسم کی صورتحال جنم لیتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ مل جل کر اس رجحان سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں، جمہوری اداروں کو مضبوط بنائیں، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں اور جامع طرز حکمرانی کے عمل کو فروغ دینے کے لیے کوششیں کریں۔اس کے علاوہ ہمیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ صرف بات چیت کو فروغ دینے، اتفاق رائے پیدا کرنے اور ادارہ جاتی خودمختاری کا احترام کرنے سے ہی پاکستان جمہوری استحکام کی طرف اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.