عید یا رسم کہن؟

77

رمضان کا چاند طلوع ہوا تو غزہ زخم زخم تھا اور اقصیٰ صہیونی پولیس کے گھیراؤ میں تھی۔ ملبوں، کھنڈروں میں بھی غزہ کے شیروں نے جھنڈیوں، چراغاں سے رمضان کو مسکراتے ہوئے بہتر امیدوں، اللہ کی رحمت ومغفرت پر نظریں جمائے خوش آمدید کہا۔ امت کے دردمندوں نے جھلملاتی آنکھوں سے مسجد ومحراب کے ملبے پر تراویح پڑھنے والے فلسطینیوں کی عزیمتوں کو سلام کیا! ایک فلسطینی اپنی پوسٹ میں لکھتا ہے: ’جب ہم خیموں میں بے گھر ہوئے پڑے بمباری کی زد میں تھے تو رمضان کے (غیریقینی گزرنے) پر گھبرا رہے تھے۔ لیکن یہ ہماری زندگی کا سب سے تیز رفتار اور آسان رمضان رہا!! پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے دلوں کو جوڑ دیا اور ان میں سکون ڈالا اور ان نہایت بھاری بھرکم ہولناکیوں کو برداشت کرنا آسان کردیا!‘
روحان گل غزہ میں رجسٹرڈ نرس کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ کہتا ہے: ’اللہ کا قرب دیکھنا ہو تو یہاں غزہ میں دیکھو۔ ہر فرد ذاکر ہے۔ میں زخم سی رہا ہوں، وہ ذکر اللہ میں مصروف ہے۔ ہسپتال کا ایک ڈائریکٹر مجھے روزانہ افطار کرواتا رہا۔ 3بچے اور بیوی کھو چکا ہے۔ دو بچے باقی ہیں۔ اس کا ایک حافظ بیٹا ہمیں ہسپتال میں تراویح پڑھاتا روزانہ۔ وہ دعا کراتا تو اللہ کے حضور سراپا شکرگزاری کہتا: ’اللہ میں تیرے شکر کا حق ادا نہیں کرسکتا ان تمام نعمتوں پر جو تونے عطا کر رکھی ہیں!‘ (حالانکہ وہ سب کچھ کھو چکا ہے۔ ماں، تین بہن بھائی، میڈیکل کا طالب علم یہ حافظ، اب اپنا تعلیمی مستقبل بھی کھو چکا!) یہ ہمارے لیے بہت بڑی یاددہانی ہے کہ ہمیں اسلام کو جان سے عزیز تر رکھنا ہے۔ اسلام کے خلاف اس جنگ میں اللہ کا قرب حاصل کرنا اہم ترین ہے۔‘ رمضان میں اسرائیل نے خصوصیت سے سحر وافطار میں انہیں نشانہ بنایا۔ بمباریاں، ٹینک، نشانہ بازی میں مستعد رہے!
ادھر برطانیہ میں اس ظلم وبے حسی پر غیظ وغضب کا بگولہ بنا ایک نوجوان اسرائیل کو اسلحہ بھیجنے والی ایک کمپنی ’ٹیلی ڈائن‘ کی عمارت میں گھس کر بھاری ہتھوڑا اس کی چھت پر برسا رہا ہے۔ ہر ہتھوڑے پر ٹوٹتی ٹائل پر نعرہ لگاتا ہے: یہ ہوا مسلط فاقوں (کا حصہ)، یہ لو قتلِ عام پر، یہ لو عورتوں کے خلاف زیادتی پر، یہ رہا مساجد پر بمباری کے لیے! اپنا غصہ ہتھوڑے سے برساکر ’فلسطین آزاد کرو‘ کے نعرے لگاتا لگاتا بلاروک ٹوک نکل جاتا ہے۔ دلِ دردمند! زندہ انسان!
الشفاء ہسپتال کے جو مناظر رمضان میں سامنے آئے وہ خون کے آنسو رلا ڈالنے والے تھے۔ مگر یہ بے حس امت! تیرے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے۔ایک عورت غم سے پھٹتی ہوئی مخاطب ہے: میں کہتی ہوں اسے (الشفاء ہسپتال کو)دیکھو۔ مسلمان کہاں ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ روزے رکھ رہے ہیں قرآن پڑھ رہے ہیں؟ یا اللہ! ہمیں دشمن پر فتح عطا فرما، ہماری حفاظت فرما! حسبنا اللہ ونعم الوکیل، بار بار کہتی ہے۔ پیچھے پیچھے وہاں کھڑے لوگ دہراتے ہیں۔( یہ نارِ نمرود کو گلزار بنا دینے والا کلمہ اہلِ غزہ نے حرزِ جان بنا رکھا ہے۔ اسی سے وہ ساری قوت ٹھنڈک اور سکینت پاتے ہیں۔ غموں کی تپش مرہم پاتی ہے۔) طویل دعائیں سبھی کے دل کی ٹھنڈک قرار، ثبات بنتی ہیں اور تماشائی امت کے لیے اسباق ! خدانخواستہ اس کے خلاف حجت بھی بن سکتی ہیں۔ یہ مسلمہ دعا کرتی ہے اللہ تو سخت دلوں کو
ہمارا درد محسوس کرنے والا، رقیق بنا دے! (آمین)
رمضان ساری گواہیاں لیے لوٹ رہا ہے۔ ہم پاکستانی جن کا یوم آزادی 27رمضان، 1366ھ بمطابق 14اگست 1947ء ہے۔ اپنی منزل بھلاکر ُ سو ئے امریکا چل دیے۔ باوجودیکہ ہمارا یہ دن بھی خونچکاں تھا۔ ہجرت کے سفر میں کٹتا، قربانیاں دیتا، پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کی طرف رواں دواں! مگر پھر اغوائے شیطانی، غولِ بیابانی کے ہاتھوں ہم قدس اور غزہ، اپنے ایمان کی شہ رگ قبلۂ اول سے منہ موڑے کھڑے ہیں۔ رمضان میں غزہ پر زیادہ بات کرنے کی کہی، ان کہی ممانعت رہی۔ رمضان میں وزارتِ تعلیم کے ہاں سے نوٹیفیکیشن جاری ہوا: ’ڈانس برائے تعلیم‘ کے عنوان سے! اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار، ڈانس/ ناچ کے ذریعے تعلیم کے فروغ کے لیے کیجیے۔ یہ پیغام اپنی ’کولیگ‘ (اساتذہ) اور طالبات تک پہنچائیے اور انہیں ابھاریں کہ وہ بھی تعلیم کو اس طرز پر آگے بڑھانے میں تعاون کریں! رمضان، پاکستان کا روحانی ماہِ آزادی ہے اور غزہ، ان تینوں عوامل کے باوجود ہم اللہ کے غضب کو کس ڈھٹائی سے مول رہے ہیں؟ پناہ بخدا! پاکستان تلخ ترین عالمی حقائق سے منہ موڑے ایک مرتبہ پھر خونیں امریکا کی خوشنودی کی راہ پر اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسوانے چلا ہے۔ افغانستان سے تعلقات کا بگاڑ بھی اسی ایجنڈے کا تسلسل ہے۔
قبلۂ اول کے محافظ، اقصیٰ کے جی دار متولی اور امین فلسطینی پورا رمضان اسرائیلی پولیس سے آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ حتیٰ کہ 27رمضان کی شب دو لاکھ فلسطینی سجدہ ریز تھے۔ (لال بچھڑے کے ذبیح اور مسجد اقصیٰ کے انہدام کے پروپیگنڈا بازوں کا منہ چڑاتے!) ولولوں سے بھرا صحنِ اقصیٰ کا منظر سوئے ہوؤں کو جگانے کے لیے بہت کافی تھا! ایک نکبہ کے دور کی فلسطینی بوڑھی خاتون جھکی کمر کے ساتھ لاٹھی لیے انہی دنوں اقصیٰ کے صحن میں تنہا گھومتی اسرائیلی سپاہیوں کو ہانکتی وہاں سے نکل جانے کو کہتی ہے۔ سپاہی یوں وہاں سے ہٹ ہٹ کر چلے جاتے ہیں گویا عصائے موسیٰ کا فرعون والا خوف ان پر طاری ہو! یہ ہے نصرت بالرعب!
دو امریکی سرجنوں نے امریکا کو غزہ کے قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کھلا خط لکھ کر لرزہ خیز حالات سنائے ہیں۔ اپنے میڈیکل مشن کے ساتھ غزہ یورپین ہسپتال طبی مدد کے لیے رضاکارانہ خدمات پیش کرنے والے یہ ڈاکٹر مارک پرلمٹر اور ڈاکٹر فیروز سِدھوا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دونوں دنیا کے 40سرجری مشنز پر 3براعظموں میں گزشتہ 57برس کے دوران رضاکارانہ کام کر چکے ہیں مگر غزہ میں جس اذیت کا سامنا بحیثیت سرجن کرنا پڑ رہا ہے وہ صرف یہ نہیں کہ ہم (مریض) بچے کو علاج فراہم نہیں کرسکتے اور وہ سسک سسک کر مر جائے گا بلکہ یہ بھی کہ وہ بالکل تنہا ہے۔ پورے خاندان کے صفائے میں بچ جانے والا تنہا بچہ! خاندان بھی یوں مرے کہ جل مرے، ٹکڑے ٹکڑے ہوکر۔ صرف اجتماعی قبروں کے لائق۔خان یونس کی فضا بارود کی بو اور سیوریج کے بدبودار بھبھکوں کی فضا ہے۔ سر پر اسرائیلی ڈرونز ہر وقت موجود جو کبھی کہیں بھی اچانک موت برسا سکتے ہیں۔ خصوصاً افطار کے وقت جب پورے پورے خاندان یک جا ہوں۔ دنیا کے ماہر ترین نشانہ بازوں نے وارڈوں میں شہری اور بچے، خوفناک ظلم کا نشانہ بنائے۔ 3سالہ بچے کے سر میں گولی، 12سالہ لڑکی کے سینے اور نرس کے پیٹ میں گولی ماری۔ اسرائیل نے ہیروشیما کے ایٹم بم کی مقدار سے زیادہ امریکی اسلحہ یہاں گرایا ہے۔ گزشتہ 4 سال میں ہونے والی تمام جنگوں سے زیادہ تعداد میں یہاں بچے مارے گئے ہیں۔ یہ احساس کہ یہاں آپریشن روم میں بہتا خون ہمارے ہاتھوں بہہ رہا ہے۔ ہم اسے اہم ترین امداد (خوں ریزی کے لیے) فراہم کر رہے ہیں یعنی ہتھیار اور سفارتی حمایت۔ ایک بے یار ومددگار آبادی پر قتل عام برسانے کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہمیں بہ حیثیت امریکی اعتراف کرنا چاہیے اس جرم کی ذمہ داری کا۔ اسرائیل کے پہلے صدر نے کہا تھا کہ فلسطینی کا وجود سرے سے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ تیس سال بعد وزیر دفاع موشے دایان نے کہا: فلسطینی کتوں کی طرح جیتے رہیں گے۔ پھر ہم دیکھیں گے آگے کیا ہوتا ہے۔ آج ہم نے غزہ ہسپتال میں دیکھ لیا۔ہم سب کو تاکیداً زور دیتے ہیں کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کی برملا مخالفت کا اظہار کریں۔ جب تک قتلِ عام بند نہیں ہوتا، غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کیا جاتا اور قبضے (فلسطین پر) کا خاتمہ طے نہیں ہو پاتا۔ (خط کے چیدہ حصے درج کیے گئے ہیں۔)
کیسے اس حال میں تم بزمِ ثقافت میں ہو مست!
کیسے حاصل ہے تمہیں آج سکون اور قرار!
ہماری نمازِ عید؟ سجدۂ تو نیست جُز رسم کہن! ایک پرانی رسم کی ادائیگی، مسلم کش امریکا کی دوستی کے ایک نئے باب کے ساتھ!

تبصرے بند ہیں.